کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 90
تبصرہ اس کو کہتے ہیں [ توجیھہ القول بما لا یرضی بہ القائل]یعنی ’’کہنے والے کی بات کی اس طرح توجیہہ کرنا کہ کہنے والا اس کو پسند نہ کرے‘‘ کیونکہ وہ توجیہہ یا تاویل اس کے مقصد اور منشا کے خلاف ہے۔ سیدنا ابن عمر کے قول کی توجیہہ عثمانی بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مقصد ومنشا کے یکسر خلاف ہے۔ سیدنا ابن عمر اپنے قول میں نکاح حلالہ کی بابت فرما رہے ہیں کہ ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زناکاری سمجھتے تھے اور موصوف اس کا مطلب یہ بیان فرمارہے ہیں کہ زنا کے ساتھ نکاح حلالہ کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے عدم انعقاد میں نہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون گویا سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ نکاح حلالہ والا عمل ہے تو یقیناً زنا لیکن نکاح منعقد ہوگیا۔ لیکن نکاح منعقد ہوگیا، والا مطلب ، سیدنا ابن عمر کے کن الفاظ سے نکلتاہے؟ ہمارے فہم سے تو بالا ہے۔ روایت میں تو ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں ۔ ہم تو یہی سمجھے ہیں کہ جب سیدنا ابن عمر اس کو زناکاری فرمارہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا نکاح حرام ہے وہ نکاح ہے ہی نہیں اگر ان کےنزدیک یہ نکاح صحیح ہوتاتو پھر وہ اسے زناکاری کیوں کہتے؟ اگر اس کا مطلب وہ لیا جائے جو مولانا تقی عثمانی صاحب بیان فرمارہے ہیں کہ یہ تشبیہ صرف حرمت میں ہے ، عدم انعقاد میں نہیں (اگرچہ یہ مطلب ان کے کسی لفظ سے نہیں نکلتا) تاہم اگر اس مطلب کو صحیح مان لیا جائے تو اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک نعوذ باللہ زناکاری بھی نکاح کے جواز کا ایک ذریعہ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے اور زنا سے بھی انعقاد نکاح صحیح ہے؟ اگر واقعی زنا سے بھی نکاح منعقد ہوجاتاہے تو پھر باقاعدہ نکاح کرنے کی اور اس کے انتظام میں لاکھوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تو کسی عورت کو قابو کرکے اس سے زنا کرلو اور سمجھ لو نکاح ہوگیا اور پھر ساری عمر اس سے زناکاری کرتے رہواگر سیدنا ابن عمر کے قول کی یہ حنفی توجیہہ صحیح ہے تو پھر عمل زنا بھی نکاح کا ایک ذریعہ ہے؟ ۔ سبحان اللہ کیا فقاہت ہے ؟ اور حنفی مدارس میں قرآن وحدیث کی تدریس کا کیا اندازہے ؟ ؎ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی