کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 9
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت ایک لاکھ چودہ ہزار صحابہ تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اورسنی ۔‘‘
دوسرا ذریعہ : کتابت
عہد جاہلیت میں کتابت اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عرب قوم کتابت سے بالکل نابلد تھی ۔ تاریخی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ عرب قوم کتابت کے مقام ومرتبہ سے بخوبی واقف تھی اگرچہ اس کا رواج ان میں کم تھا ۔ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
[ كان الكامل عندهم في الجاهلية وأول الإسلام الذي يكتب بالعربية ...] [1]
’’ عرب کے ہاں ایام جاہلیت میں اور اسلام کے ابتدائی دور میں کامل شخص وہی سمجھا جاتا تھا جو (تیراکی ، نشانہ بازی ودیگر خصوصیات کے ساتھ ) عربی لکھنا بھی جانتا ہو۔‘‘
تاریخ میں بیشمار ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں عرب کتابت کی قدر ومنزلت کو سمجھتے تھے تفصیل کیلئے دیکھئے ۔ ( فتوح البلدان ص 579۔583، عیون الأخبارج 1 ۔ ص43، القصد والأ مم لابن عبد البر ص 22 المحبر 475 اور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب الوثائق السیاسيةص 181) ۔
فن کتابت میں مہارت عرب کے ہاں معروف ومعتبر تھی اور اسلام کے آنے کے بعد تو تعلیم وکتابت نے بے پناہ ترقی پائی ۔ کیونکہ خود فنِّ کتابت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت دلچسپی لی اور اس کا بدرجہ اتم اہتمام بھی فرمایا ۔ اس لئے عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فن کتابت کو یکایک فروغ ملا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اس میں بھی لکھنے پڑھنے کی ترغیب دی گئی چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ﴿ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبّك الَّذِي خَلَقَ﴾ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ مزید فرمایا
﴿ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ Ǽۙالَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ Ćۙعَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ Ĉۭ﴾
تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔
قرآن مجید کی دیگر چند آیات میں بھی کتابت کے احکام موجود ہیں جس میں قرض جیسے معاہدات کو لکھنے کا حکم دیا گیا ہے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
[1] طبقات ابن سعد 2/91