کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 89
3. پھر قرآن کے عموم سے اگر حلالۂ معلونہ کے ذریعے نکاح کا جواز ثابت ہے تو پھر شیعوں کا نکاح متعہ بھی جائز ہونا چاہیے، کیونکہ قرآن کے عموم سے آپ اس کو کس طرح خارج کریں گے؟ حدیث کے ذریعے سے تو یقیناً نکاح متعہ خارج ہوسکتاہے، حرام قرار پاسکتاہے کیونکہ حدیث قرآن کی مخصّص ہے ، قطع نظر اس کے کہ وہ حدیث متواتر ہے یا خبر واحد، صرف اس کا صحیح ہوناشرط ہے لیکن اگر حدیث کو عموم قرآن کا مخصّص نہیں ماناجائے گا تو صرف نکاح حلالۂ ملعونہ ہی جائز نہیں ہوگا بلکہ نکاح متعہ بھی جائز ہوگا اور عارضی نکاح بھی جائز ہوگا جو آجکل بعض حضرات نے تعلیمی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائز قرار دیاہے۔ اسی طرح ہمارے پاک وہند میں ایک فراہی گروہ ہے جس کو پاکستان میں غامدی گروہ بھی کہاجاتاہے ۔ یہ گروہ بھی اپنے نظریات کے خلاف احادیث کو نہیں مانتا۔ اس لیے یہ گروہ بھی اس حدیث کو نہیں مانتا جس میں دوسرے خاوند کے لیے ہم بستری کو ضروری قرار دیا گیاہے چنانچہ یہ گروہ [تنکح] کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے صرف عقد نکاح کے بعد ہی(ہم بستری کے بغیر) طلاق دے دینے کے بعد زوج اول سے نکاح کو جائز قرار دیتاہے۔ عموم کی منطق سے انکار حدیث پر مبنی یہ گمراہانہ نظریہ بھی صحیح ہوگا۔
4.... مآخذ شرعیہ میں ، قرآن کریم کے بعد سب سے بڑا اور دوسرا ماخذ حدیث نبوی ہے اور احادیث کا بیشتر حصہ ، بلکہ 98 فی صد حصہ احادیث آحاد پر مشتمل ہے اگر احادیث آحاد کی صحت وحجیت ۔نعوذ باللہ۔ مشکوک ہے تو دین کی بنیاد ہی منہدم ہوجاتی ہے اس لیے فقیہ الامت ، امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح البخاری میں ’’کتاب اخبار الآحاد‘‘ میں اس مسئلے یعنی حجیت خبر واحد کو نہایت مدلل طریقے سے بیان کرکے اس کی خصوصی اہمیت کو اجاگر اور ثابت کیا ہے اور بتلایا ہے کہ حدیث صحیح مطلقاً حجت ہے اور اس سے قرآن کے عموم کی تخصیص بھی بالکل صحیح ہے۔
مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :
5.’’ اس کے علاوہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قول میں زنا کے ساتھ اس عمل کی تشبیہ صرف حرمت میں ہے عدم انعقاد میں نہیں جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس معاملے میں زوجین کو تفریق کا کوئی حکم نہیں دیا۔‘‘ (درس ترمذی)