کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 88
عموم قرآن کی اس تخصیص کے لیے علمائے احناف کے پاس کونسی متواتر حدیث ہے؟ بلکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس فقہی مسئلے کے اثبات کے لیے جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے ، علمائے احناف کے پاس متواتر حدیث تو کجا کوئی صحیح خبر واحد بھی نہیں ہے۔ یہ فقہی مسئلہ سراسر ضعیف حدیث پر مبنی ہے جبکہ صحیح ترین احادیث کی رو سے کم سے کم مہر حتی کہ تعلیم قرآن یا قبول اسلام(کسی مردکا) کو بھی حق مہر مقرر کیا جاسکتاہے۔
کیا مشق ناز کے لیے احادیث رسول ہی رہ گئی ہے؟ کیا فقہ کے بے سروپامسائل، احادیث رسول سے ثابت شدہ مسائل کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں کہ ان کو تو صحیح احادیث کے باوجود خبر آحاد کہہ کر نہایت آسانی سے رد کر دیاجاتاہے لیکن فقہی مسئلہ بے دلیل ہونے اورعموم قرآن کے خلاف ہونے کے باوجود محترم اور مقدس ہے۔ یہ حدیث رسول کو ماننا ہے یا فقہ کو مانناہے؟ قرآن کو ماننا ہے یا تقلیدی جمود کا مظاہرہ ہے؟
یہ تو بات واضح کرنے کے لیے ایک مثال دی ہے ورنہ فقہ حنفی کے متعدد مسائل ہیں جو عموم قرآن کی تخصیص پر مبنی ہیں اور ان کے لیے ان کے پاس متواتر احادیث تو کجا سرے سے کوئی خبر واحد بھی نہیں ہے جیسے نصاب سرقہ کا مسئلہ ہے ، نبیذ تمر سے وضو کرنے کا مسئلہ وغیرہ۔ ان کے اثبات کے لیے ان کے پاس کونسی معقول دلیل ہے اور کس بنیاد پر انہوں نے ان کی وجہ سے قرآن کے عموم کی تخصیص کرکے قرآن پر زیادتی کی ہے؟
خبرواحد کی حجیت سے انکار صرف انہی مسائل میں کیوں جو فقہ کے خلاف ہیں اور جو مسائل فقہ حنفی میں ہیں اور وہ عموم قرآن کے خلاف ہیں ان میں خبرواحد حجت کیوں ہے؟ بلکہ وہاں تو ضعیف حدیث بھی جو سرے سے دلیل ہی نہیں ہے وہ بھی حجت ہے۔ حدیثی مسائل اور فقہی مسائل کے اثبات میں یہ دو عملی بلکہ ایک کے ساتھ معاندانہ اور دوسرے کے ساتھ مفاہمانہ طرزعمل کیوں ؟
اور اس سے کیا یہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ کو اصل محبت تو خود ساختہ فقہ اور اس کے مسائل سے ہے اور قرآن وحدیث کے ساتھ آپ کا معاملہ صرف واجبی سا ہے بلکہ ان کا استعمال اور اس سے استدلال ایک خصوصی غرض(فقہی مسائل کے اثبات) کی وجہ سے ہے ، جہاں یہ غرض پوری ہوتی ہے وہاں خبر واحد تو کیا ضعیف ومنقطع حتی کہ موضوع روایات بھی قابل قبول، بصورت دیگر صحیح ترین احادیث بھی وضعی اور خودساختہ اصولوں کی سان پر چڑھا کر مردود قراردے دی جاتی ہیں ۔ چہ خوب
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے