کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 87
ہے کہ سزائے رجم کا اثبات قرآن کے عموم کے خلاف اور قرآن پر زیادتی ہے۔
بتلائیے! منکرین حدیث (قدیم وجدید) میں اور اہل فقہ میں فرق کیاہے؟ قرآن کریم کی تفسیر اور حدیث کی حجیت میں دونوں کا طرز استدلال اور طرز عمل ایک ہے ۔ فرق کہاں ہے؟
2. یہ کہنا کہ ہم ’’خبرواحد‘‘ سے عموم قرآن کی تخصیص کے قائل نہیں اور صرف اسے ہی قرآن پر زیادتی قرار دیتے ہیں ۔
تو ہم کہتے ہیں کہ اول تو یہ ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘ والی بات ہے یعنی اپنے دل کو مطمئن کرنے یا دل کو دھوکہ دینے والی بات ہے کہ ہم حدیث کا انکار نہیں کر رہے ہیں ، حدیث آحاد کا انکار کر رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حدیث آحاد سے قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہوسکتی، یہ اصول کس نے بنایا یا بتلایاہے؟ کیا اللہ نے نازل کیا ہے کہ میرا قرآن بہت مقدس ہے، اس کے عموم کی تخصیص حدیث آحاد سے نہیں کرنا، یہ میرے مقدس کلام کی توہین یا اس پر زیادتی ہے؟ یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بتایا ہے جن کی تقلید کا دم آپ بھرتے ہیں کہ میرا قول خبر واحد(حدیث رسول) سے زیادہ اہم ہے ، اس لیے جب خبر واحد سے اس کا ٹکراؤ ہوتو میرا قول اس پر مقدم ہے، اسی لیے آپ مسئلہ زیر بحث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ثابت شدہ صحیح فرمان کو خبرواحد کہہ کرٹھکرا رہے ہیں محض اس لیے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلالۂ ملعونہ کے ذریعے سے نکاح اگرچہ مکروہ ہے لیکن ہوجاتاہے۔ تو کیا یہ اصول امام صاحب یا ان کے تلامذہ صاحبین کا بنایا ہواہے؟
آخر یہ اصول کس نے بنایاہے جو منکرین حدیث کی فکر سے ہم آہنگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے مجرمانہ حد تک بے اعتنائی کا مظہر ہے؟
پھر یہ ’’اصول‘‘ اگر اتنا ہی’’مقدس‘‘ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو فقہ کے بہت سے مسائل بھی اس سے ٹکراتے ہیں تو وہاں اس اصول کو کیوں استعمال نہیں کیا جاتااور اس سے متضاد فقہ کے مسائل کو کیوں رد نہیں کیاجاتا؟
جیسے فقہ حنفی کا مسئلہ ہے کہ حق مہر دس درہم سے کم مقرر کرنا جائز نہیں ہے حالانکہ قرآن کے عموم سے حق مہر کی کمی بیشی جائز ہے اور احادیث میں تو بڑی صراحت سے اس کے ثبوت موجود ہیں ۔ کیا کم از کم دس درہم حق مہرمقرر کرنے کو لازم قراردینا، قرآن کے عموم کی تخصیص نہیں ہے؟