کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 85
علمائے احناف سے بھی چند سوال
1.علمائے احناف بھی اس کی وضاحت فرمائیں کہ بے غیرتی اور لعنت الٰہی والا راستہ پسندیدہ ہے یا تقلیدی جمود کا راستہ جس میں قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ سے گریز کیے بغیر آدمی نہیں چل سکتا۔؟
2.یہ بھی وضاحت فرمائی جائے کہ اسلام بے غیرتی والا دین ہے یا غیرت والا؟ اسلام نے کسی بھی مرحلے میں بے غیرتی کی تعلیم دی ہے ؟
3.نیز کیا اسلام میں ایک شخص کے جرم کی سزا کسی دوسرے شخص کو دی جاسکتی ہے؟ تیسری طلاق دینے کا جرم تو مرد(خاوند) کرتاہے لیکن آپ حضرات اس کی سزا عورت(بیوی) کو دیتے ہیں کہ ایک دو راتوں کے لیے اسے کرائے کے سانڈ کے حوالے کردیتے ہیں ۔ کیا اسلام میں اس بے انصافی کی اجازت ہے؟ اور کیا یہ قرآن کریم کی آیت﴿ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ﴾ کے خلاف نہیں ہے؟
4. اور کیا یہ فتویٔ حلالہ خلاف عقل بھی نہیں ہے ؟ تقاضائے عقل تو یہ ہے کہ جرم کی سزا مجرم کو دی جائے اور آپ حضرات اس کی سزا اس کو دیتے ہیں جو سراسر بے قصور ہے۔البتہ ایک غیرت مند شوہر کی چند راتیں اس کرب میں ضرور گزرتی ہیں کہ اس کی بیوی کو کب کرائے کے سانڈ سے آزادی ملتی ہے اور وہ ’’باعزت‘‘ اس کے پاس واپس آتی ہے؟
عموم قرآن کی تخصیص میں ، حدیث رسول سے گریز کے نقصانات
بہر حال بات ہورہی تھی،قرآن کریم کے الفاظ ﴿ حتّٰى تنْكح زوْجًا غيْره﴾ کی کہ حدیث رسول ’’لعن اللّٰه الْمحلّ والمحلّل له ‘‘نے اس نکاح کو خاص کر دیا ہے اس نکاح کے ساتھ جو آباد رہنے کی نیت سے کیا جائے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں نکاح کا صرف یہی طریقہ رکھاگیا ہے۔ عارضی نکاح ، چاہے وہ متعہ کی صورت میں ہو،حلالہ مروجہ کی صورت میں ہو یا اب بعض متجددین نے ایک تیسرا طریقہ گھڑاہے کہ کسی ملک میں تعلیم کے دوران میں کسی مقیم عورت سے عارضی طور پر چند مہینوں یا چند سالوں کے لیے نکاح کر لیا جائے۔ یہ سارے ممنوع اور یکسر حرام ہیں ۔اسلام میں نکاح صرف وہی ہے جو ہمیشہ آباد رہنے کی نیت سے کیا جائے اور مذکورہ تینوں صورتوں میں یہ نیت نہیں پائی جاتی بلکہ اس کے برعکس سب میں اغراض فاسدہ کی