کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 84
بہر حال بات ہورہی تھی مذکورہ آیت کی بابت اردو مفسرین کے توضیحی نوٹس کی ، اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ کے نام سے ایک مختصر تفسیر لکھی ہے۔ موصوف اس میں [الطلاق مرتان]کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق میں عدت کے اندر رجوع اور عدت گزر جانے کے بعد میاں بیوی کے درمیان دوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔ اور پھر آیت
﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]
(اگروہ تیسری طلاق بھی دےدے تو) کے تحت لکھتے ہیں :
’’تین طلاقوں کے بعد دونوں راستے بند ہوجاتے ہیں اور تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا۔‘‘[1]
اب اس آیت کے عموم سے اگر بہ نیت تحلیل نکاح کا جواز نکلتا ہے جیسا کہ انہوں نے ’’درس ترمذی‘‘ میں یہ استدلال پیش کرکے اس سے یہ جواز ثابت کیا ہے تو پھر ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ میں یہ کہنا کہ ’’تینوں طلاقوں کے بعد تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا‘‘ کس طرح درست ہے؟ اگر قرآن کی آیت کی وہ تفسیر صحیح ہے جو انہوں نے اپنی تفسیر میں کی ہے تو ’’درس ترمذی‘‘ میں بیان کردہ استدلال اور اس سے ایک تیسرا راستہ نکالنا غلط ہے اور اگر ’’درس ترمذی‘‘ والی بات صحیح ہے تو پھر تفسیر والی بات غلط ہے۔
مولانا تقی عثمان صاحب سے سوال
اس کی وضاحت وہ خود ہی فرمائیں گے کہ ان میں سے کونسی بات درست اورکونسا استدلال صحیح ہے؟ قرآن کریم کی بیان کردہ وضاحت جس کی صحیح تفسیر کرنے کی توفیق اللہ نے آپ کو دی یا’’درس ترمذی‘‘ کا وہ استدلال جو آپ نے خانہ ساز اصول کی آڑ لے کر تقلیدی جمود میں پیش کیا؟ اور جس سے تین طلاقوں کے بعد بھی ایک نہایت آسان راستہ تعلقات کی بحالی کا کھل جاتاہے جو قرآن کریم کی رو سے نہیں کھلتا۔ اس نہایت آسان راستے میں البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان کو بے غیرت اور لعنت الٰہی کامورد بننا پڑتاہے لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ تقلید کا طوق زرّین محفوظ رہتاہے ۔
[1] آسان ترجمۂ قرآن ، ص: 143۔144