کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 83
وغیرہ) میں اس طرز عمل کا شکوہ اور اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم نے صرف حوالوں پر اکتفا کیاہے ، تاہم ہم یہاں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا صرف ایک اقتباس پیش کرکے آگے چلتے ہیں کیونکہ یہ بات تو درمیان میں ضمناً نوک قلم پر آگئی ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں : ’’ اگر تم اس امت میں یہود کا نمونہ دیکھنا چاہو تو ان علمائے سوء کو دیکھ لو جو دنیا کے طالب اور اپنے اسلاف کی تقلید کے خوگر اور کتاب وسنت سے روگردانی کرنے والے ہیں اور جو عالموں کے تعمق اور تشدد یا ان کے بے اصل استنباط کو سندٹھہراکر معصوم شارع کے کلام سے بے پروا ہوگئے ہیں اور موضوع حدیثوں اور فاسد تأویلوں کو اپنا مقتداء بنا رکھا ہے ۔[1] مولانا عبد الماجد دریا آبادی مرحوم بھی حنفیت کے تقلیدی جمود سے باہر نہ نکل سکے اور اس لعنتی فعل کے ذریعے سے جواز نکاح کے قائل رہے تاہم اس آیت کی وضاحت میں ان کا تفسیری نوٹ نہایت گراں قدر ہے۔ فرماتے ہیں : ’’اس شرط کے ساتھ نئے شوہر کا کسی مطلقہ کے ساتھ نکاح کرنا کہ بعد صحبت طلاق دے دی جائے گی تاکہ وہ اپنے شوہر اول کے لیے جائز ہوجائے ، حلالہ کہلاتاہے۔ حدیث میں محلّل یعنی وہ دوسرا شوہر جو نکاح جیسے اہم اور مقدس معاہدے کو پہلے شوہر کی خاطر ایک کھیل اور تفریح کی چیز بنائے دیتاہے اور محلّل لہ یعنی وہ پہلا شوہر جس کی خاطر معاہدہ نکاح کی اہمیت،سنجیدگی وتقدیس خاک میں ملائی جارہی ہے ، ان دونوں پر لعنت آئی ہے۔‘‘ [2] لیکن ہم ان حنفی علماء سے پوچھتے ہیں کہ محلّل اور محلّل لہ کو تو آپ مستحق لعنت سمجھ رہے ہیں لیکن جن فقہاء نے اس کو سند جواز دے کر نکاح جیسے سنجیدہ اور مقدس معاہدے کو ایک کھیل اور تفریح کی چیز اور معاہدئہ نکاح کی اہمیت، سنجیدگی وتقدیس کو خاک میں ملایا ہے اور آج بھی ان کی تقلید میں آپ لوگ دین کو کھلونا بنائے ہوئے ہیں ،کیا آپ اسلام کی صحیح وکالت،قرآن کی صحیح وضاحت اور شریعت کی صحیح تعبیر کررہے ہیں ؟ اور اگر محلّل اور محلّل لہ ملعون ہیں تو اس لعنتی فعل کو جواز کی سند مہیا کرنے والے کیاہیں ؟
[1] الفوز الکبیر ، اردو ترجمہ ، ص: 17، ندوۃ المصنفین ، دھلی [2] تفسیر ماجد 1/92 ، مطبوعہ تاج کمپنی