کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 82
رہے، پھر اگر اتفاق سے وہ دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے(یا مرجائے) تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتاہے۔ آیت کے آخری جملے[فإنْ طلّقها فلا جناح عليْهما أنْ يتراجعا]کا یہی مطلب ہے۔[1]
یعنی والد مرحوم نے اللہ کی منشا یہ سمجھی کہ تیسری طلاق دینے والے کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریق حلالہ کے بغیر اب یہ دونوں میاں بیوی باہمی رضا مندی کے باوجود بھی دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے لیکن صاحبزادہ گرامی قدر فرماتے ہیں کہ تیسری طلاق بھی دےدی ہے تو کوئی فکر والی بات نہیں ہےایک دو راتوں کے لیے کسی سے عارضی نکاح کر دیا جائے،پھر اس سے طلاق لے کر (عدت گزارنے کے بعد) دونوں میاں بیوی دوبارہ نکاح کرلیں ۔
یعنی اللہ تعالیٰ یہ تیسری طلاق دینے والے کو ایک مخصوص سزا دے کر طلاق دینے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتاہے تاکہ گھر بربادنہ ہوں اور بچے والدین کی شفقت اور نگرانی سے محروم نہ ہوں لیکن حلالۂ ملعونہ کو حلال ثابت کرنے والے یا بقول علامہ اقبال : قرآن کو بدلنے(اللہ کی منشا کو ختم کرنے والے)فقیہان حرم طلاق کی حوصلہ افزائی فرمارہے ہیں ۔ اور وہ بھی کس وجہ سے ؟ کیا ان کے پاس اپنے موقف کی کوئی نقلی دلیل ہے؟ نہیں ، یقینا نہیں ۔ کوئی عقلی دلیل ہے؟ نہیں وہ بھی یقیناً نہیں ہے۔ سوائے اس تقلیدی جمود کے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں جو اہل تقلید کا ہردور میں شعار رہا ہے اور علم وتحقیق کے اس دور میں بھی وہ اپنی اسی روش پر مصر ّّہیں اور دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی واضح نصوص کے مقابلے میں اس تقلیدی جمود کو یہ علمائے مقلدین خود بھی یکسرناجائز،حرام اور کفر کے قریب طرز عمل قرار دیتے ہیں ، جس کو ہماری اس بات میں شبہ ہو، وہ ’’تذکرۃ الرشید‘‘ میں مولانا اشرف علی تھانوی کا وہ مکتوب پڑھ لیں جو مقلدین کے اسی طرز عمل کی بابت انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی کو تحریر کیا تھا، اور ان کے فتاویٰ امدادیہ میں بھی اس کی صدائے بازگشت سنی جاسکتی ہے اسی قسم کی رائے کا اظہار مولانا محمود الحسن مرحوم نے ’’ایضاح الادلۃ‘‘ میں کیا ہے اور خود مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی تالیف ’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ میں بھی کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی متعدد کتابوں (حجۃ اللہ البالغہ، عقد الجید، الانصاف اور التفھیمات
[1] تفسیر ’’معارف القرآن ‘‘ 1/558۔859۔1983ء