کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 81
ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم لکھتے ہیں :’’پھر اگر(دوطلاقوں کے بعد) کوئی (تیسری) طلاق بھی دےدے عورت کو تو پھر وہ (عورت) اس (تیسری طلاق دینے والے) کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس (خاوند) کے سوا اور خاوند کے ساتھ(عدت کے بعد) نکاح کرے(اور اس سے ہم بستری بھی ہو)پھر اگر یہ (دوسرا خاوند) اس(عورت) کو طلاق دےدے (اور عدت بھی گزر جائے) تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ (دوبارہ نکاح کرکے) بدستور پھر مل جاویں .... ‘‘
(آیت کے اس تفسیری ترجمے کے بعد مولانا تھانوی فرماتے ہیں )
ف: اس کو حلالہ کہتے ہیں جب کوئی شخص اپنی بی بی کو تین طلاق دے گا پھر دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے یہی حلالے کا طریق شرط ہے ..... ۔‘‘[1]
مولانا تھانوی نے ’’بہشتی زیور‘‘ میں بھی اس مسئلے کا بیان کیا ہے لیکن اس میں اپنے تقلیدی جمود کو نہیں چھوڑا اور حلالے والے نکاح کو حرام اور باعث لعنت قرار دینے کے باوجود نکاح کا جواز تسلیم کیا ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
’’اگر دوسرے مرد سے اس شرط پر نکاح ہوا کہ صحبت کرکے عورت کو چھوڑ دے گا تو اس اقرار لینے کا کچھ اعتبار نہیں ، ا س کو اختیار ہے چھوڑے یا نہ چھوڑے اور جب چاہے چھوڑے۔ اور یہ اقرار کرکے نکاح کرنا بہت گناہ اور حرام ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت ہوتی ہے لیکن نکاح ہوجاتاہے۔‘‘[2]
مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں :
’’ یعنی اگر اس شخص نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی(جو شرعاً پسندیدہ نہ تھی) تو اب نکاح کا معاملہ بالکلیہ ختم ہوگیا۔ اس کو رجعت کرنے کا کوئی اختیار نہ رہااور چونکہ اس نے شرعی حدود سے تجاوز کیا کہ بلا وجہ تیسری طلاق دےدی تو اس کی سزا یہ ہے کہ اب اگر یہ دونوں راضی ہوکر پھر آپس میں نکاح کرناچاہیں تو وہ بھی نہیں کرسکتے، اب ان کے آپس میں دوبارہ نکاح کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ عورت(عدت طلاق پوری کرکے) کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور حقوق زوجیت ادا کرکے دوسرے شوہر کے ساتھ
[1] تفسیر بیان القرآن ، ص:75، مطبوعہ تاج کمپنی
[2] بہشتی زیور، حصہ چہارم، ص:239، طبع مدینہ پبلشنگ کمپنی ، کراچی