کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 80
جواب بھی آج تک کسی حنفی عالم نے نہیں دیا ہے(سبحان اللہ ، جادو وہ جو سرچڑھ کر بولے)
اس صحیح اور لاجواب حدیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہورہاہے کہ نکاح حلالہ چاہے شرط کے ساتھ نہ بھی ہو لیکن نیت حلالے کی ہوتو وہ حرام اور زناکاری ہے۔ زناکاری کے ذریعے سے ایسی عورت پہلے خاوند کے لیے کس طرح حلال ہوجائے گی؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پہلے میاں بیوی حلالۂ ملعونہ کے بعد دوبارہ آپس میں بظاہر ازدواجی تعلق قائم کریں گے تو یہ جائز ملاپ نہیں ہوگا بلکہ وہ زانیوں کا ملاپ ہوگا اور ساری عمر زناکاری کے مرتکب رہیں گے۔
قرآنی آیت سے استدلال کی حقیقت
اب ہم آتے ہیں قرآن کریم کی آیت [حتّٰى تنْكح زوْجًا غيْره] کی طرف جس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے انہوں نے اس صحیح حدیث کو جس سے اس آیت کی تخصیص بھی ہوتی ہے اور صحیح مفہوم کی وضاحت بھی، اپنے ایک خودساختہ اصول کے حوالے سے ٹھکرا دیاہے۔ اور وہ حدیث ہے ۔[لعن رسول اللّٰه الْمحلّ والمحلّل له ]
قرآن کریم کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ تیسری طلاق کے بعد اب خاوند اپنی مطلقہ بیوی سے نہ رجوع کر سکتاہے اور نہ نکاح کے ذریعے ہی سے ان کے درمیان تعلق بحال ہوسکتاہے جب کہ پہلی اور دوسری طلاق میں دونوں راستے کھلے ہوتے ہیں ، عدّت کے اندر رجوع ہوسکتاہے اور عدت گزرجانے کے بعد دوبارہ ان کے درمیان نکاح جائز ہے۔ لیکن تیسری طلاق کے بعد یہ دونوں ہی راستے بند ہوجاتے ہیں ۔ اب ان کے درمیان دوبارہ نکاح کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ مطلقہ کسی اور شخص سے نکاح کرے ، پھر اتفاق سے ان کے درمیان نباہ نہ ہوسکے اور وہ طلاق دےدے یا وہ فوت ہوجائے تو طلاق یاوفات کی عدت گزارنے کے بعد وہ زوج اول سے نکاح کر سکتی ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں تمام مفسرین حلالے کا یہی واحد مشروع طریقہ بیان کرتےہیں ، کسی بھی مفسر نے یہ جرأت نہیں کی کہ اس آیت کے عموم سے حلالہ ملعونہ کا بھی جواز ثابت کرے جس سے نکاح متعہ بھی از خود جائز قرار پاجائے۔ ماضی قریب کے چند حنفی مفسرین کے حوالے ملاحظہ فرمائیں جن سب کا خصوصی تعلق دارالعلوم دیوبند ہی سے ہے جو پاک وہند کے علمائے احناف کی مسلمہ مادرعلمی