کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 8
دے کر کہنے لگے[شغلني عنها الصفق بالأسواق ] بازاروں میں تجارت کی غرض سے گھومنا پھرنا مجھے اس سنت کے یاد کرنے سے محروم کرگیا ۔ [1]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ حدیث سیکھنے کیلئے لوگوں کے دروازے پر آتے اور بیٹھے رہتےآپ فرماتےہیں [ فأطرق الباب فیقولون إنه نائم وسط النهار ، في القیلولةفأجلس عند بابه تسفي الریح في وجهه في حر الشمس حتى یستیقظ فاذا خرج ورآنی قال: ابن عم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم هلا أرسلت إلي فآتيك ۔ فأقول : العلم أحق أن یؤتی إليه ۔۔۔۔۔] [2]
’’میں کسی صحابی سے حدیث لینے اس کے گھر جاتا ، دروازہ بجاتا تو اندر سے جواب ملتا ہے وہ قیلولہ کررہے ہیں ۔ فرماتے ہیں میں ان کے بیدار ہونے کے انتظار میں ان کے گھر کے دروازے پر ہی بیٹھ جاتا گرد وغبارچہرے پر پڑتا اور سورج کی گرمی میرے چہرے کو جلا رہی ہوتی یہاں تک کہ وہ صاحبِ داربیدار ہوکر گھر سے نکلتے اور مجھے دیکھتے تو فرماتے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاکے بیٹے ! آپ نے تکلیف کیوں کی ہمیں بلا لیتے ہم آپ کے پاس حاضر ہو جاتے ۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے کہ علم زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے پاس جایا جائے نہ کہ اسے اپنے پاس بلایا جائے ۔‘‘
صحابہ کرام کے حفظ حدیث کیلئے تڑپ ، شوق اور ولولے کی مثالیں بے شمار ہیں ۔ اور صحابہ کی تعداد اور اگر دیکھا جائے تو اس وقت احکام وعبادات پر مشتمل احادیث کی تعداد پر شک صرف وہی کرسکتا ہے جس کے دل میں کجی ، ٹیڑہ پن اور بیماری ہو۔ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
[قبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عن مائة ألف وأربعة عشرألف من الصحابة ممن روى عنه وسمع منه ] [3]
[1] صحیح بخاری : کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، باب الحجۃ علی من قال ان أحکام النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نت ظاھرۃ
[2] جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر ج 1 ص 411
[3] التقريب مع التدريب ج 2 ص 220 بحوالہ تيسير مصطلح الحديث