کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 79
[ عنْ عمر بْن نافعٍ، عنْ أبيه، أنّه قال: جاء رجلٌ إلى ابْن عمر رضي اللّٰه عنْهما، فسأله عنْ رجلٍ طلّق امْرأته ثلاثًا، فتزوّجها أخٌ له، منْ غيْر مؤامرةٍ منْه، ليحلّها لأخيه، هلْ تحلّ للْأوّل؟ قال:لا، الْإنْكاح رغْبةٌ، كنّا نعدّ هذا سفاحًا على عهْد رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليْه وسلّم] اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں ذکرکیا ہے اور صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے اور حافظ ذھبی نے بھی اس پر سکوت کیاہے۔ اس استدلال کا کوئی جواب احقر کی نظر سے نہیں گزرا،البتہ اس کا یہ جواب سمجھ میں آتاہے کہ قرآن کریم کی آیت [حتّٰى تنْكح زوْجًا غيْره] میں مطلق نکاح کا ذکر ہے خواہ شرط تحلیل کے ساتھ ہو یا بغیر شرط تحلیل کے۔ اس پر خبر واحد سے زیادتی نہیں کی جاسکتی ۔‘‘(درس ترمذی) تبصرہ مولانا موصوف کے اس مفصل پیرے پر تبصرہ سے پہلے اس حدیث کا ترجمہ ملاحظہ فرمالیں جس کا ترجمہ انہوں نے نہیں کیا، نیز روایت کی صحت مان لینے اور اس کا کوئی جواب نہ ہونے کے اعتراف کے باوجود ایک خود ساختہ اصول کی آڑ لے کر اس صحیح حدیث کو ردّ کر دیا۔ ترجمۂ حدیث : ’’ ایک شخص سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اس کے بھائی نے اپنے بھائی سے مشورہ کیے بغیر اس کی بیوی(اپنی بھابھی) سے اس نیت سے شادی کرلی تاکہ وہ بھائی کے لیے اپنی (مطلقۂ ثلاثہ) بیوی سے(دوبارہ) نکاح کرنے کو جائز کردے۔(یعنی بنیۃ التحلیل عارضی نکاح کی بابت پوچھا : جس کو احناف جائز کہتےہیں ۔ کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس طرح وہ زوج اول کے لیے حلال ہوجائےگی؟) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ نکاح نہیں ہے۔ نکاح تو وہ ہے جو(بغیر شرط تحلیل اور بغیر نیت تحلیل کے)اپنی رغبت سے کیاجائے(گویا یہ زناہے) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا سمجھتے تھے۔‘‘ کتنی واضح حدیث ہے اور اس کے ساتھ یہ اعتراف بھی ہے کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کا کوئی