کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 78
نھی(روکنا) ہی ہے لیکن اصول فقہ کی رو سے یہ نھی (روکنا) بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے تمام افعال شرعیہ( جن سے روکاگیاہے) اس فعل کی اصل مشروع(جائز)ہے۔ یعنی شراب کا بنانا،پینا بیچنا،سودکاکھانا،رشوت کاکھانا،رشوت کا لینادینا وغیرہ وغیرہ ، ان کو ملعون قرار دینے سے مقصود تو یقیناً نھی (روکنا)ہے لیکن اصل میں یہ سب مشروع (جائز) کام ہیں اس لیے یہ سب کام اصل کے اعتبار سے جائز ہوں گے اگر کوئی ان کا ارتکاب کر لے گا تو اس کے لیے ان کا جواز ہوگا اور وہ گنہگار نہیں ہوگا۔
ہمیں اصول فقہ میں مہارت کا دعویٰ تو نہیں لیکن موصوف کی ظاہری عبارت کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہی آیا ہے اس کی تائید اس بات سے ہورہی ہے کہ جس سیاق میں اس خود ساختہ اصول کا حوالہ دیاگیاہے وہ نکاح حلالہ کا جواز مہیا کرناہے جبکہ خود موصوف کو بھی یہ تسلیم ہے کہ شریعت میں اس کی بابت نھی (ممانعت) بصورت لعنت واردہے، اس کے باوجود وہ ایک خانہ ساز فقہی اصول کے حوالے سے اسے اصل کے اعتبار سے مشروع(جائز) قراردے رہے ہیں ۔ بنابریں ہم نے جو سمجھا ہے وہ یقیناً صحیح ہے۔
اس اعتبار سے یہ فقہی اصول بھی ان خود ساختہ اصولوں میں سے ایک ہے جو نہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ثابت ہے اور نا صاحبین (قاضی ابو یوسف اور امام محمد) سے۔ بلکہ جب تقلیدی جمود میں شدت آئی تو خود ساختہ فقہی مسائل سے متصادم صحیح احادیث کو ٹھکرانے کے لیے یہ اصول وضع کیے گئے۔ان اصولوں کے ذریعے سے ہر صحیح حدیث کو، جسے احادیث کے نقد وتحقیق کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں رد نہیں کیا جاسکتا، اسے ان وضعی اصولوں میں سے کسی ایک اصول کا سہارا لے کر ٹھکرادیاجاتاہے، جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکال کر پھینک دیاجاتاہے۔
ان خانہ ساز اصولوں کی درانتی سے کام لینے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس سے ہمارے ایک فقہی جزئیے کا جواز تو مہیا ہوجائے گا لیکن اس کی زد شریعت کے کتنے ہی حرام کاموں پر پڑے گی اور اس ایک فقہی مسئلے کے اثبات سے کتنے ہی حرام کاموں کا جواز ثابت ہوجائے گا۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پارہو یا درمیاں رہے
5.مولانا عثمانی صاحب فرماتے ہیں :
’’شافعیہ کے مسلک(کہ حلالہ حرام ہے) پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے بھی استدلال کیاگیا ہے: