کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 77
تبصرہ
یہ منطق بھی ناقابل فہم ہے کہ حلالہ اگرچہ حرام ہے لیکن اس کے ارتکاب سے نکاح منعقد ہوجائےگا، اس کا مطلب یہ ہواکہ حرام کام بوقت ضرورت کرنے جائز ہیں اور اس کے ارتکاب سے وہ سارے مقاصد بھی حاصل ہوجائیں گے جو حلال کام کے ذریعے سے حاصل ہوتے ہیں ۔ پھر حلال،حرام کے درمیان کوئی فرق تو نہ رہا۔ ایک شخص کسی کا مال حرام طریقے(چوری،ڈاکے،غصب وغیرہ) سے حاصل کرلے، تو یہ فعل تو حرام ہے لیکن کیا یہ حاصل شدہ مال اسی طرح جائز ہے جس طرح حلال طریقے سے حاصل کردہ مال ہوتاہے اور اس غاصب،چور اور ڈاکو کے لیے اس مال کا استعمال بالکل حلال طریقے سے حاصل کردہ مال ہی کی طرح جائز ہوگا؟
اسی طرح اگر ایک کام حرام ہونے کے باوجود جائز ہوسکتاہے تو پھر شیعوں کا نکاح متعہ بھی حلال ہونا چاہیے، اس کو حرام اور ناجائز کیوں کہا جاتاہے؟ یا پھر ان دونوں حراموں کے درمیان فرق بتلایا جائے کہ نکاح حلالہ حرام ہونے کے باوجود اس لیے حلال ہے بلکہ باعث اجرہے اور نکاح متعہ اس لیے حلال نہیں ۔ اس فرق کی وضاحت کے بغیر ایک حرام کو حلال اور دوسرے حرام کو حرام ہی کیوں کر سمجھا جاسکتاہے؟
4.مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :
’’ان حضرات کا استدلال حدیث باب [لعن رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليْه وسلّم الْمحلّ والمحلّل له ] سے ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اس روایت میں نھی عن التحلیل ہے ، نفی نکاح نہیں ہے اور نھی’’ عن الافعال الشرعیۃ ‘‘ اصل فعل کی مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے کما تقرر فی أصول الفقہ ‘‘ (درس ترمذی)
تبصرہ
مولانا موصوف کے اس پیرے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ نکاح حلالہ کو ملعون قرار دے کر نکاح حلالہ سے روکنا مقصود ہے لیکن اس نھی (روکنے) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نکاح حلالہ منعقد ہی نہیں ہوگا کیونکہ نھی (ممانعت) اصل فعل کی مشروعیت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کاموں پر لعنت فرمائی ہے(جن سے متعلق چند احادیث پہلے بیان ہوئی ہیں ) ان سے اصل مقصود تو