کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 76
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔‘‘ اورمتعدد فیشنی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ [لعن اللّٰه الْواشمات، والْمسْتوْشمات ] [1] اللہ تعالیٰ نے گودنے والی اور گودوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ۔ کیا یہ اور دیگر بہت سے لعنتی کام اس وقت ہی لعنتی اور ان کے کرنے والے اس وقت ہی ملعون ہوں گے جب ان کو کوئی خودساختہ امام ہی ملعون قرار دےگا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو ملعون قرار دینا کافی نہیں ہوگا؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ کاموں اور ان کے مرتکبین کو ملعون قرار دینے کے بعد کسی فقہی حیلے سے ان کو جائز قرار دیاجاسکتاہے؟ اگر ان میں سے کوئی ملعون کام حلال نہیں ہوسکتا تو حلالہ کیوں کر جائز ہوسکتاہے؟ حلالۂ ملعونہ کو کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اس کو ملعون کے بجائے ماجور (قابل اجر) مان لیاجائے؟ آخر دوسرے ملعون کام اور حلالۂ ملعونہ میں کیا فرق ہے جس کی بنیاد پر ایک تو حلال ہوجائے اور دوسرے حرام کے حرام ہی رہیں ؟ ﴿ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾ [البقرة: 111] 3. مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں : ’’پھر نکاح بشرط التحلیل امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک محقق ہی نہیں ہوتا اور نہ اس سے عورت زوج اول کے لیے حلال ہوتی ہے جبکہ ہمارے(احناف) کے نزدیک ایسا کرنا اگرچہ حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کا ارتکاب کرلے گا تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور عورت زوج اول کے لیے حلال ہوجائےگی۔‘‘ (درس ترمذی)
[1] سنن ابی داؤد ، حدیث:4169