کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 74
اس کو حلال کرنے کا اظہار نہ ہو لیکن اگر دل میں اس کو حلال سمجھتے ہوئے کرے گا تو نہ وہ حلال ہوگا اور نہ اس پر اجر ملے گا بلکہ ہوسکتاہے وہ ڈبل جرم کا مرتکب سمجھاجائے۔ ایک حرام کام کو اختیار کرنے کا، دوسرا حرام کو حلال سمجھنے کا بلکہ ایک تیسرا جرم کسی دوسرے کے لیے حرام کو حلال کرنے کا۔ پھر یہ کونسا اصول ہے کہ زبان سے تو تحلیل کا نہ کہے لیکن دل میں تحلیل کی نیت کرلے تو وہ نہ صرف جائز بلکہ قابل اجر ہوجائےگا؟ اس فقہی حیلے کی رو سے توہر حرام کام حلال اور جائز قرار پاجائیں گے۔ مثلاً : ایک چور اس نیت سے چوری کرے، ایک ڈاکو اس نیت سے ڈاکہ ڈالے کہ میں اس رقم کو غریبوں پر خرچ کروں گا۔ اسی طرح کوئی سود بھی غریبوں پر اور رشوت بھی غریبوں پرخرچ کرنے کی نیت سے لے تو کیا اچھی سی نیت کرلینے سے مذکورہ حرام کام نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر ہوجائیں گے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں ہے کہ حسن نیت سے کوئی حرام کام بھی جائز ہوسکتاہے توپھر حلالہ جیسا حرام اور لعنتی فعل محض اس نیت سے کہ میرے اس حرام کام سے دوسر ے شخص کا اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوجائے گا اور ایک دوسرے بھائی کا بھلا ہوجائے گا۔ کیسے حلال اور جائز بلکہ ماجور کام قرار پا ئے گا؟ 2. مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں :  ’’امام احمد کے نزدیک یہ صورت بھی(بہنیت تحلیل عارضی نکاح) ناجائز اور باطل ہے ،وہ حدیث باب کے اطلاق سے استدلال کرتے ہیں کہ اس میں محلل پر مطلقاً لعنت کی گئی ہے اور تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ہم (احناف) یہ کہتے ہیں کہ تخصیص تو آپ نے بھی کی ہے وہ اس طرح کہ حدیث باب کے اطلاق کا تقاضا تویہ تھا کہ اگر نکاح نہ بشرط التحلیل ہو اور نہ بنیۃ التحلیل ہو پھر بھی اگر زوج ثانی طلاق دے کر اس کو زوج اوّل کے لیے حلال کردے تو بھی ناجائز ہے کیونکہ محلل کا لفظ اس پر بھی صادق آتاہے حالانکہ ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں ۔‘‘ (درس ترمذی) تبصرہ یہ ساری گفتگو محض اپنی بات کو جائز قرار دینے کے لیے ہے۔ نیز خلاف حقیقت ہے یہ دعوی کہ ’’ایسا شخص کسی کے نزدیک بھی ملعون نہیں ‘‘یکسر غلط ہے جب ایسا شخص زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے