کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 73
فرمان رسول اور صحابہ کے موقف کے برعکس فقہائے احناف کامسلک
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان اور آثارصحابہ کی رو سے یہ لعنتی فعل ۔حلالہ۔ فقہائے احناف اور موجودہ علمائے احناف کے نزدیک نہ صرف جائز ہے بلکہ ان کے نزدیک (نعوذ باللہ) یہ باعث اجر کام ہے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون ۔
اب تک تو ہم سنتے ہی آئے تھے کہ علمائے احناف حلالے کے جواز کا فتوی دیتے ہیں لیکن یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ موجودہ علمائے احناف میں ایک نہایت برسرآوردہ عالم مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں جن کو ان کے عقیدت مندوں نے شیخ الاسلام کے لقب سے بھی نوازا ہوا ہے۔ جن کا اس دور میں ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ’’میزا ن بینک‘‘ کے نام سے جو بینک قائم ہواہے اس کو غیر سودی بینک قرار دے کر سودی طریقوں کو سند جواز مہیا کی ہے ۔ گویا فقہی حیلوں کے ذریعے سے حرام کو حلال کرنے میں ان کو خصوصی مہارت حاصل ہے۔ اللہ کرے زور فقاہت اور زیادہ ۔
اسی فقہی مہارت کے ذریعے سے انہوں نے حلالہ جیسے لعنتی فعل کے جواز میں بھی سات دلائل مہیا کیے ہیں جو ان کے ’’درس ترمذی‘‘ نامی کتاب کی زینت ہیں ۔
ہم مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ان دلائل سبعہ کا مختصراً جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں ۔ ہم ترتیب وار ان پر گفتگوکریں گے۔پہلے مولاناموصوف کی عبارت اور تبصرہ کے عنوان سے اس پر نقد ہوگا۔ وباللہ التوفیق
1. مولانا عثمانی صاحب حدیث [لعن اللّٰه الْمحلّ والمحلّل له ](ترمذی) کی شرح میں فرماتے ہیں ’’اس حدیث کی بناء پر نکاح بشرط التحلیل بالاتفاق ناجائز ہے البتہ اگر عقد میں تحلیل کی شرط نہ لگائی گئی ہو لیکن دل میں یہ نیت ہوکہ کچھ دن اپنے پاس رکھ کر چھوڑ دوں گا تو حنفیہ کے نزدیک یہ صورت جائز ہے بلکہ امام ابوثور کا قول ہے کہ ایسا کرنے والا ماجور ہوگا۔‘‘ (درس ترمذی)
تبصرہ
حالانکہ مشہور حدیث ہے[إنّما الأعْمال بالنّيّات] (عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے)
علاوہ ازیں نیت کا تعلق بھی صرف حلال کاموں سے ہے۔ حرام کام کرتے وقت نیت کتنی بھی اچھی ہو، وہ حلال نہیں ہوگا نہ اس پر اجر ملے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایک حرام کام کرتے وقت زبان سے