کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 71
بلکہ ایک اور حدیث میں حلالہ کرنے والے شخص کے لیے بالتّيْس الْمسْتعار (کرائے کا سانڈ) جیسے کر یہہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں ۔ [1] اور قرآن یا حدیث میں اس قسم کے الفاظ کہ یہ باعث لعنت ہیں ، یا رجس( ناپاک )ہیں ، شیطانی عمل ہیں ، وغیرہ۔ ان سے مقصود ان کاموں کی حرمت وممانعت ہوتی ہے جیسے شراب کو رجس اور شیطانی عمل کہاگیاہے ،فضول خرچی کرنے والے کو شیاطین کا بھائی کہا، جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے،ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان کا مطلب یہی ہے کہ یہ افعال ممنوع اور حرام ہیں اور ان کے مرتکبین ملعون ہیں ۔ اپنے لیے کیے جائیں یا کسی دوسرے کی خاطر ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ حرام کام اپنے لیے ممنوع ہو، وہ کسی دوسرے کی خاطر کرنے کی وجہ سے جائز ہوجائے۔ علاوہ ازیں حرام کام حسن نیت سے حلال نہیں ہوجائے گا، وہ حرام ہی رہے گا ، الاّ یہ کہ کسی نص سے کوئی استثناء ثابت ہو۔ مروجہ حلالے کو بھی شریعت میں لعنت کا باعث قرار دیاگیاہے اور اس کی بابت کسی قسم کا استثناء بھی ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا اقتضاء یہ ہے کہ ایسا مشروط نکاح حلالہ یا حلالے کی نیت سے کیاگیا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا بلکہ یہ زناکاری شمار ہوگا اور اس زنا کاری سے وہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ آثار صحابہ رضی اللہ عنہم 1. صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بجا طور پر ان فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی مطلب سمجھا ، چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا : [لا أوتى بمحلّلٍ ولا بمحلّلةٍ إلّا رجمْتهما.] [2] ’’میرے پاس جو بھی حلالہ کرنے والا مرد اور وہ عورت جس کے ساتھ حلالہ کیا گیا لائے جائیں گے تو میں دونوں کو سنگسار کردوں گا، یعنی زنا کاری کی سزا دوں گا۔‘‘ 2. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو مطلقہ عورت سے اس کے
[1] سنن ابن ماجہ ، باب المحلل [2] مصنف عبد الرزاق الصنعاني ، باب التحلیل : 6 / 265