کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 70
احکام ومسائل حلالہ کی شرعی حیثیت حافظ صلاح الدین یوسف[1] تفویض طلاق کے مسئلے میں جس طرح فقہائے احناف کا مسلک ایک طرح کی شریعت سازی کے مترادف ہے جس کی ضروری تفصیل بیان ہوچکی ہے۔ اس طرح انہوں نے مروجہ لعنتی حلالے کو بھی نہ صرف جائز بلکہ اسے باعث اجر وثواب قرار دے کر شریعت کے ایک نہایت اہم حکم کی پامالی کا راستہ کھولاہواہے ، یا یہ الفاظ دیگر تفویض طلاق کی طرح ایک اور شریعت سازی کر رکھی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں جس عورت کو طلاق بتّہ (الگ الگ تین موقعوں ں پر تین طلاقیں یا احناف کے نزدیک بیک وقت ہی تین طلاقیں ) مل گئی ہوں ، اس کے لیے حکم ہے کہ اس کے بعد وہ پہلے خاوند سے دوبارہ اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتی جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اور اس کے پاس ہی آباد نہ رہے،پھر اگر اتفاق سے ان کے درمیان نباہ نہ ہوسکے اور وہ طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن طلاق بتّہ مل جانے کے بعد پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے یہ حیلہ اختیار کرنا کہ کسی مرد سے شرط کرکے نکاح کرکے ایک دو راتیں اس کے پاس گزار کر طلاق حاصل کر لینا اور پھر پہلے خاوند سے نکاح کر لینا، اس حیلے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنتی فعل قرار دیا ہے اور حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے : [لعن رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليْه وسلّم الْمحلّ والمحلّل له] [2]
[1] مدیر: شعبہ تحقیق و تصنیف دارلسلام ، لاہور [2] جامع ترمذی ، باب التحلیل