کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 7
ومعروف ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو شریعت سمجھتے تھے۔ (اس لئے وہ آپ کی مجالس کا اتنا اہتمام کرتے تھے ۔)[1]
انہیں محض ایک حدیث کی تحقیق کیلئے ایک ماہ کا سفر بھی کرنا پڑا تو کیا ۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ نے عبد اللہ بن انیس سے ایک حدیث سننے کیلئے شام کاسفر کیا جو کہ ایک مہینے پر محیط تھا اس وقت ان کے علاوہ کوئی ایسا فرد زندہ نہیں تھا جس نے براہ راست وہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ ‘ ‘[2]
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے مصر میں جناب عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے ملاقات کیلئے سفر کیا جس کا مقصد بھی مسلمان کی پردہ پوشی میں وارد ایک حدیث کو سننا تھا ۔ آپ جب عقبہ بن عامر سے ملے تو فرمانے لگے :’’ مجھے وہ حدیث سناؤ جو تم نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر مسلم ( مسلمان کی پردہ پوشی ) کے بارے میں سنی تھی اس وقت اس حدیث کو سننے والوں میں صرف میں اور آپ ہی بچے ہیں ۔ جب سیدنا عقبہ بن عامر نے وہ حدیث سنادی تو ابو ایوب رضی اللہ عنہ اپنی سواری کا کجاوہ کھولے بغیر ہی مدینہ کی طرف واپس ہو لئے ۔‘ ‘[3]
حفظِ حدیث کیلئے صحابہ کا شوق دیدنی ہوا کرتا تھا ۔ اگر ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مجلس فوت ہوجاتی تو پریشان ہوجاتے ، افسوس کرتے ۔ عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ کتب ِحدیث میں مشہور ومعروف ہے کہ ایک دفعہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے آپ کے سامنے( استئذان) والی حدیث بیان کی یعنی اگر کوئی شخص کسی مسلمان بھائی کے گھر جاتا ہے تین دفعہ اجازت طلب کر ے اگر گھر والا اجازت دے تو داخل ہو ورنہ واپس چلاجائے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی تو ان سے کہا کہ تمہاری اس بات کی گواہی کون دے گا ۔ اس پر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور آپ نے گواھی دی کہ میں نے بھی یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ۔ یہ سننے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ افسردہ ہوگئے اور کہنے لگے[کیف فاتتني هذه السنة]یہ سنت مجھ سے کیسے چھوٹ گئی اسے یاد نہ کرسکا ۔ پھر خود ہی جواب
[1] حوالہ کیلئے ملاحظہ ہو: صحیح بخاری: کتاب العلم ،باب التناوب في العلم
[2] صحیح بخاری : کتاب العلم ، باب الخروج في طلب العلم
[3] الرحلة في طلب الحديث ، للخطيب البغدادي ، ص 188