کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 63
اوران کی فقہی بصیرت و بصارت پردہ ء عالم سے مخفی کیوں ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کو جہاں دیگر سہولیات میسر آئیں وہیں ان کو ایسے قابل فخر تلامذ ہ بھی میسر آئے جنہوں نے قلم وقرطاس اور درس وتدریس کے ذریعے اپنے اساتذہ کرام کے علمی ورثے کو بطریق احسن منتقل کیا تواسی تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوعلم کی نشر واشاعت کے سلسلے میں جہاں دیگر سہولیات میسر تھیں وہیں ایسے ہونہار شاگرد بھی میسر آئے جن میں سے ہر کوئی اپنی ذات میں انجمن تھا۔
امام بخاری رحمہ اﷲ نے آپ کے شاگردوں کی تعداد آٹھ سو ذکر کی ہے ۔[1]
(جن میں سے )بکثرت شاگردوں نے ان کی احادیث کو قلم بند کیا تھا ۔[2]
آئندہ سطور میں سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے ان قابل فخر تلامذہ کا تذکرہ بھی ملاحظہ کریں ۔
جنہو ں نے سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایات کو احاطہء تحریر میں لا کر ان کی روایات کو حفاظتی شکل عطا کی۔
ھمام بن منبہّ :
ڈاکٹر حمید اﷲلکھتے ہیں :ھمام بن منبہّ نے اپنے استاد سے حدیثوں کا جو مجموعہ حاصل کیا تھا ۔اسے نہ تو ضائع کیا اور نہ اپنی ذات تک محدود رکھا بلکہ اپنی نوبت تک اسے شاگردوں تک پہنچایا اور رسالہء زیر تذکرہ کی روایت یا تدریس کا مشغلہ انہوں نے پیرانہ سالی تک جاری رکھا۔خوش قسمتی سے انہیں ایک صاحب ذوق شاگردمعمر بن راشد یمنی بھی مل گئے ۔معمر کو بھی ایک ممتاز اہل علم بطور شاگردمل گئے ، یہ عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری تھے ۔عبدالرزاق نےبنفسہ روایت کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ان کی خوشی قسمتی ہے کہ انہیں دو بڑے ہی اچھے شاگردملے ۔ایک امام احمد بن حنبل اور دوسرے ابو الحسن احمد بن یوسف السلمی ۔۔امام ا حمد نے اسے اپنی ضخیم تالیف المسند کے باب ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کی ایک خاص فصل میں بلا حذف واضافہ ضم کر دیا ہے ۔ [3]
[1] سیرأعلام النبلاء 2/579
[2] سنت کی آئینی حیثیت: ص284
[3] مقدمۃ صحیفہ ہمام بن منبہ ص:50،51