کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 60
کے مصداق ہمیں مستغربین کی اصلاح کے لیے ان اعتراضات کا جواب دیناپڑتا ہے۔ جو بقول ابن تیمیہ رحمہ اللہ: "لا للاسلام نصرو ا ولا للکفر کسروا" ترجمہ:نہ اسلام کی کوئی مدد کی نہ کفر کا نقصان کا روپ دھارے سادہ لوح مسلمانوں کے قلوب واذہان میں شکوک و شبھات کے بیج بو رہے ہیں ۔ آئندہ سطور میں ہم ان سوالات کے جوابات ملاحظہ کرتے ہیں جوسیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی کے متعلق مستشرقین اور ان کے فیض یافتگان مستغربین کی طرف سے کیے جاتے ہیں : اعتراض نمبر۱: عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول کیا۔ جواب نمبر ۱:پہلی بات تو یہ ہے کہ خلیفہء وقت کا کسی کو بھی معزول کرنا اس کی شخصیت میں قدح کا باعث نہیں یہ حکومتی پالیسیوں کا ایک حصہ اور حکمران کی صوابدید پہ منحصر ہے وہ جس کو چاہے عہدہ دے اور جس کو چاہے معزول کرے اگر یہ معزولی سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو داغدار کرتی ہے تو انہوں نے ان کے علاوہ ابو موسی اشعری،حارث بن کعب بن وھب ،سعد بن ابی وقاص، مغیرہ بن شعبہ اور خالدبن ولید رضی اللہ عنھم کو بھی ان کے ذمہ داریوں سے ہٹا کر انہیں ان کے عہدوں سے معزول کیا تھا تو کیا اب یہاں بھی یہ سمجھا جائے گاکہ یہ معزولی ان جلیل القدر شخصیات کی تنقیص اور ان پہ عدم اعتماد کااظہارہے؟[1] پھر بھی یادرہے کہ بحث وتفتیش کے بعد جب سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی براء ت ثابت ہوئی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نےا نہیں پھر عہدے کی پیشکش کی تھی مگر سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بذات خودان سے معذرت کرلی تھی۔[2]
[1] ابوھریرہ واقلام الحاقدین ص :6 [2] طبقات ابن سعد2/255