کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 6
ہےجو قرآن کے احکام کی وضاحت کرتی ہیں ۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إلَيْهِمْ ﴾آپ لوگوں کو وہ بیان کردیں جورب کی طرف سے ان پر نازل ہوا ہے۔ لہذا درحقیقت اللہ تعالیٰ نے کتاب اور سنت دونوں کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔[1] حفاظت حدیث کے ذرائع تدوین حدیث میں جس جانفشانی کا مظاہرہ کیا گیا وہ کسی اورقسم کی معلومات اور علم کی حفاظت میں نہیں کیا گیا ۔ حدیث کی حفاظت کے ذرائع بھی وہی ہیں جو کہ قرآن مجید کی حفاظت کے ذرائع ہیں ۔ اور احادیث بھی انہی لوگوں ( صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ) سے ہم تک پہنچیں جن کے ذریعے ہم تک قرآن پہنچا۔ذیل میں ان ذرائع کا ذکر کیا جاتاہے ۔ ۱ : حفظ صدر : عرب میں عموماکتابت سے زیادہ زبانی یاد کرنے کا رواج عام تھا ۔ ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ غیر معمولی تھا اور اس والہانہ عقیدت اور شیفتگی کی بناپر جو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رکھتے تھے ، ان کے ارشاداتِ گرامی کو حفظ کرنے کا انہیں بڑا اشتیاق تھا ، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیثیں سنتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے تشریف لے جاتے ، تو ہم آپس میں حدیثوں کا دَورہ کرتے ۔ یکے بعد دیگرے ہم میں سے ہر شخص ساری حدیثیں بیان کرتا ، اکثر مجلس میں بیٹھنے والوں کی تعداد ساٹھ تک ہوتی اور وہ سب باری باری بیان کرتے ، پھر جب ہم اُٹھتے تو حدیثیں یُوں یاد ہوتیں ، گویا وہ ہمارے دِلوں پر نقش ہوگئی ہیں ۔‘‘ [2] جو صحابہ کاروبار میں مصروف ہوتے وہ باریاں لگاتے تھے کہ ایک دن ایک حاضر ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا اور جاکر اپنے ساتھی کو سناتا دوسرے دن دوسرا ساتھی جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتا اور واپس جاکر اپنے ساتھی کو جو کچھ سنا ہوتا سناتا ۔ عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے پڑوسی کے ساتھ باری لگانے کا واقعہ مشہور
[1] شرح نخبۃ الفکر مع تعلیق ملا علی قاری [2] خطبات ومقالات از سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ ص 263،264