کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 59
وفات آپ نے 58 ھ میں وفات پا ئی۔[1] نمازجنازہ: آپ کی نماز جنازہ أمیر مدینہ ولید بن عتبہ نے پڑھائی اورآپ کے جنازے میں عبد اﷲ بن عمر رضی رضی اللہ عنہما اور ابوسعدخدری رضی اللہ عنہ نے بھی شرکت کی۔ [2] اور آپ کی میت اٹھانے والوں میں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے بھی شامل تھے۔ [3] گزشتہ سطورمیں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی عظمت کو مختلف عناوین کے تحت اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا سادہ الفاظ میں یہی خلاصہ ہے کہ جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار سپاہی ہیں جنہوں نے اپناتن،من،دھن خدمت اسلام اور تبلیغ علم کے لیے وقف کر رکھا تھا ان کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےسب سے زیادہ احادیث مروی ہیں اور وہ اخلاف ِامت میں راوی اسلام اور حافظۃ الاسلام جیسے لقب سے سرفراز ہوئے ۔ آپ کی جملہ مساعی کا اہل اسلام نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ آپ کے ذکر خیر سے علمی محافل ومجالس کو گرماتے بھی رہتے ہیں مگر مستشرقین کی تمام تر قوتیں اور توانائیاں اسی بات پہ صرف ہوتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو داغدار کر دیا جائے جس کا لازمی نتیجہ ان روایات کی تردید کی شکل میں نکلے گاجو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کیونکہ جب ایک شخصیت ہی متنازعہ یا مشکوک قرار دے دی جائے تو اس کی بیان کردہ روایات کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔در حقیقت ہمیں مستشرقین سے نہ کوئی غرض ہے اور نہ ہی ہم ان کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دینے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں مگر: خوف برق نہ خوف شر لگے ہے مجھے اپنے ہی باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے
[1] تذکرۃ الحفاظ للذھبی 1/37 [2] طبقات ابن سعد 5/258 [3] طبقات ابن سعد 5/257