کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 58
جاؤگے،جو اﷲنے تمہاری قسمت میں لکھ دیا اس پر راضی ہو جاؤ سب سے مالدار ہو جاؤ گے، اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو تم مؤمن بن جاؤ گے ، لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو تم مسلمان ہو جاؤ گے اور زیادہ مت ہنسوکیو نکہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔‘‘[1] اس حدیث سے مندرجہ بالاامور واضح ہوئے: 1.حصول علم کے لیے سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حر ص کس قدر زیادہ ہے کہ آپ نہ صرف ہمہ وقت علم وعمل کے لیے تیار رہتے ہیں بلکہ اپنی ذات کو تبلیغ علم کے لیے بھی وقف کرتے ہیں ۔ 2:رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کمال محبت وشفقت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کے انہیں تعلیم دی تاکہ اچھی طرح متوجہ ہو کر اس حدیث کو سنیں ۔ ڈاکٹر محمد عجاج الخطیب فرماتے ہیں :حقیقت میں ہم نے ملاحظہ کیا ہے کہ یہ حدیث سیدناابوہریرہ رضی رضی اللہ عنہ پہ مکمل منطبق ہوتی ہے۔[2] مرض موت میں وصیت آخری لمحات میں انسان ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے مگرسیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ سانسوں کی ڈوری ٹوٹ رہی ہے اور آپ حدیث نبوی پہ عمل کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : [لا تضربو اعلی قبری فسطاطاولا تتّبعونی بنار فاذاحملتمونی فاسرعوافان اکن صالحا تأتو ن بی الی ربیّ وان أکن غیر ذ لک فانما ھوشیء تطر حونہ عن رقابکم] [3] ترجمہ :میری قبر پہ خیمہ مت گھاڑنا اور نہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر چلنا اور جب میری میت اٹھاؤ تو جلدی لے کر جاناکیونکہ اگر میں نیک ہوں تو تم مجھے میرے رب کی طرف لے جارہے ہو اور اگر میں براہوں تو میں ایسی چیز ہوں جسے تم اپنی گردنوں سے اتار پھینکوگے۔
[1] جامع ترمذي:كتاب الزهد, باب من اتقى المحارم فهوى أعبد الناس [2] ابوھریرہ راو یۃالاسلام ص:108 [3] طبقات ابن سعد 5/255