کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 54
ہماری اس بات کی تصدیق مختلف روایات سے ہوتی ہے جن میں سے دو مندرجہ ذیل ہیں ۔
1.جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاخوداپنا بیان ہے کہ جب میں ہجرت کر کے مدینہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف روانہ ہو چکے تھے تو (مدینہ پہنچ کر )میں نے فجر کی نماز سباع بن عرفطۃرضی اللہ عنہ کی امامت میں اداکی۔[1]
نمازکی ادائیگی کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ۔ سباع بن عرفطۃرضی اللہ عنہ کے پاس آئے جنہوں نے انہیں زادِ راہ دیا جس کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خیبرمیں جاکر حاضری دی۔[2]
یہ روایت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نہ صر ف طفیل بن عمر والدوسی رضی اللہ عنہ کی دعوت پہ مسلمان ہو چکے تھے بلکہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ اور واقف تھے کہ دین اسلام کے دوسرے بنیادی رکن( نماز) کی ادائیگی کس طرح کی جاتی ہے۔
1.جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ طفیل بن عمر والدوسی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہایقینادوس قبیلہ والے ہلاک ہوگئے ہیں (کیونکہ )انہوں نے نا فرمانی کی اور اسلام قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ لہٰذا آپ ان پر بد دعا کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَللّٰھُمَّ اھدِ دوساوائت بھم[3]
ترجمہ:یااﷲدوس قبیلے والوں کو ہدایت دے اور ان کو( میرے پاس مسلمان بناکر) لے آ۔
حافظ ابن حجراس قصے کے دیگر طرق ذکر کرنے کے بعد رقمطراز ہیں :
ھذایدلّ علی تقدّم اسلامہ[4]
ترجمہ:یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں ۔
[1] سیرأعلام النبلاء:2؍589
[2] زادالمعاد 282/2
[3] صحیح بخاري:كتاب الجهاد,باب الدعاء للمشركين بالهدى ليتألفهم
[4] فتح الباري :2/127