کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 5
ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے ۔ اورحفاظت کے ایسے اسباب مہیا فرمائے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ صحیح احادیث محفوظ کردی گئیں ، ضعیف اور موضوعات چھانٹ کر الگ کردی گئیں ۔ ایک طرف تحریف کا عمل جاری رہا تو دوسری طرف تخلیص کا عمل بھی جاری رہا حق کو باطل سے علیحدہ کردیا گیا۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جوشخص بھی اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے ہاں یہ بات یقینی اور حتمی ہےکہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی حفاظت کا ذمہ لے لیں وہ کبھی ضائع نہیں ہوتی ، کوئی مسلمان اس میں شک کی گنجائش بھی نہیں کرسکتا ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام مکمل وحی ہے فرمان باری تعالیٰ ہے ’’﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى o إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى ] [النجم/3، 4﴾ ’’ ( پیغمبر ) اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کرتے ۔ وہی کرتے ہیں جو ان کی جانب وحی کی جاتی ہے ۔‘‘اجماع امت کی رو سے وحی ذکر ہے ، اور ذکر کی حفاظت ( قرآن سے ) ثابت ہے کہ وہ محفوظ ہے ، لہذا پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کی بدولت سے بہر صورت محفوظ ہوگیاہے ،اور یہ سب لا محالہ ہم تک نقل ہو چکا ہے ۔[1]
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کتاب اور حکمت دے کر مبعوث فرمایا وہ سب محفوظ ہے‘‘[2]
علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ ’’ شرح نخبة الفکر ‘‘ میں تعلیقا لکھتے ہیں کہ جب عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ : ان موضوع روایات کا کیا بنے گا ؟( جو لوگوں نے دسیسہ کاریوں سے کتابوں میں داخل کردی ہیں ) ۔ آپ فرمانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ ان کیلئے بھی جہابذہ ( نقاد وحذاق ) پیدا فرمادے گا ( جو خبیث کو طیب سے الگ کردیں گے ) ۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون ﴾ ’’بیشک ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ‘‘
آپ رحمہ اللہ کا مقصود یہ تھا کہ لفظِ’’ ذکر‘‘ میں اس کتاب کے الفاظ کے ساتھ اس کے معنی ومفہوم کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے لیا ہے ۔ اور اس کے معنیٰ ومفہوم کی وضاحت احادیث نبویہ کی صورت میں
[1] الإحكام في أصول الأحكام ،ج 1 ص 241
[2] مجموع الفتاوى ،ج 6 ص 231