کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 49
بھی توحید کے منافی امور میں سے ہے کیونکہ اس اطاعت میں شرک کا پہلو موجود ہے ۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورة براءة کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا :
﴿ اِتَّـخَذُ وْا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُ وْ نِ اللّٰهِ ﴾ (التوبہ : 31)
ترجمہ:انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے۔[1]
توحید کے منافی امور میں سے یوں کہنا کہ ’’جو آپ چاہیں اور اللہ چاہے‘‘، یایہ جملہ کہنا کہ’’اگر اللہ اور آپ نہ ہوتے‘‘ ،یا یوں کہناکہ ’’اللہ اور فلاں پر میں نے توکل کیا ‘‘ کیونکہ یہ جملہ یا تو شرک اکبر ہے یا شرک اصغر ہے اگر کہنے والے کا اعتقاد یہ ہو کہ اللہ تعالی اور جس کو اس نے یہ سمجھا کہ دونوں قدرت و مشیئت میں برابر ہیں تو یہ شرک اکبر ہے اور اگر اس کا اعتقاد یہ نہ ہو تو ان الفاظ کی وجہ سے شرک اصغر ہے ۔سنن نسائی میں روایت ہے کہ’’قتیلہ‘‘ قبیلہ جہینہ کی ایک خاتون روایت نقل کرتی ہیں کہ ایک یہودی ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ تم اللہ تعالی کے ساتھ شریک مقرر کرتے ہو اور کہتے ہو کہ آپ چاہیں (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اللہ چاہے (تو یہ کام ہوجائے گا) اور تم لوگ کہتے ہو یعنی قسم ہے خانہ کعبہ کی۔
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا لوگوں کو کہ جب تم قسم کھانے کا ارادہ کرو تو تم لوگ کہا کرو یعنی قسم ہے خانہ کعبہ کے پروردگار کی اور اگر کوئی شخص کہنا چاہے تو ماشاءاللہ کہے۔ اس کے بعد کہا کرے اور لفظ [شئت]نہ کہا کرے۔[2]
[1] جامع الترمذي:كتاب تفسير القرآن و من سورة التوبة وقال هذا حديث غريب
[2] سنن النسائي:كتاب الأيمان و النذور،باب الحلف بالكعبة