کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 4
اصحاب ِلغت میں سے صاحب ’’ لسان العرب ‘‘ کے نزدیک جب ’’ سنت ‘‘ کا لفظ بغیر کسی قید وشرط کے بولا جائے تو شریعت میں اس کا مقصد وہ فعل ہوتا ہے جس کا قرآن میں ذکر نہ ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کرنے کا حکم دیا ہو یا اس سے منع فرمایا ہو ، چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ’’ کتاب وسنت ‘‘ شرعی دلائل میں سے ہیں ۔ یہاں ’’ کتاب وسنت ‘‘ سے قرآن وحدیث مراد لئے جاتے ہیں ۔ پس ’’ سنت ‘‘ اور ’’ حدیث ‘‘ باہم مترادف الفاظ ہوئے ۔ ائمہ حدیث کی مرتب کردہ تمام کتب سنن میں بھی ’’ سنت ‘‘ کو اسی متعارف ومصطلح قولی ، فعلی اور تقریری معانی میں ذکرکیا گیا ہے ، پس ہر دو اصطلاحات کا ہم معنی ہونا محقق ہوا ۔[1] پس جیسا کہ قرآن کریم کے متعدد نام’’ جن میں فرقان ، برھان ، القرآن ‘‘ وغیرہ ہیں اسی طرح سنت کے بھی متعدد نام ہیں جن میں حدیث بھی ہے ۔ جیسا کہ فرقہ ناجیہ کو أهل السنة بھی کہا جاتا ہے ، اور أهل الحديث بھی ۔ کتب حدیث کے اہل علم نے نام كتب الحديث بھی رکھے ہیں اور كتب السنن بھی ۔ فی زمانہ چند فقہی مکاتب فکر اور چند نام نہاد محققین نے اصطلاحی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہوئے حدیث اور سنت میں تفریق کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس پر مفصل تحریر قارئین ان شاء اللہ البیان کی آئندہ اشاعت میں ملاحظہ کریں گے،اس مقام پر وضاحت کریں گے کہ اس تفریق کی اتنی شدّ ومد سے ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اور حدیث اور سنت میں تفریق کےفلسفہ کے پس پردہ حقائق کیا ہیں ؟ ۔ اس تحریر میں محض یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ حفاظت حدیث ایک معجزہ الٰہی ہے کسی بندہ بشر کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس کام کو انجام دے سکے ۔ اور اس کا تمام کام بأمر شرع انجام پایا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ، فعل ، تقریر سے متعلق وہ تمام سرمایہ جس انداز اور جن حالات میں محفوظ کیا گیا یہ ایک معجزہ سے کم نہیں ۔ اس سرمائے کی حفاظت میں اتنی دقت اور باریک بینی کا واضح مقصد یہی تھا کہ حدیث دین ہے اور اسے محفوظ کئے بغیر دین محفوظ نہیں رہے گا ۔ حدیث کی حفاظت کن مراحل اور کن کن حالات میں ہوئی اس کے مطالعہ سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا تھا کہ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ [الحجر: 9] ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔وہ رب تعالیٰ نے بدرجہ اتم پورا فرمایا ۔ کیونکہ حدیث بھی وحی
[1] فتنہ انکار حدیث کا ایک نیا روپ ، از غازی عزیر ج 1 ص 138