کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 3
ہوگی وہ اپنے تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا ہوگااور کہے گا کہ : اسے چھوڑ دو ،ہم جو کتاب اللہ میں پائیں گے اسی کی پیروی کریں گے ۔‘‘ لفظ سنت کا استعمال زبانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : [فعليكم بسنتي ، وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ ، وإياكم ومحدثات الأمور ، فإن كل بدعة ضلالة ]. [1] ’’پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفائے راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں ) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ مذکورہ بالا دونوں روایات میں جو لفظ ’’حدیث ‘‘اور’’ سنت ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ایک ہی معنی میں کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ، فعل اورتقریر کی اتباع امت کیلئے ضروری ہے ۔ چاہے آپ اس کو حدیث کہہ لیں یا سنت کہہ لیں ۔ کیونکہ حدیث کا لغوی معنیٰ ’’ بات ‘‘ ہے ۔ اور روایت چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہوتی ہے وہ اس معنیٰ میں حدیث ہے ۔ اور اس روایت میں مذکور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہوتا ہے اور لغت میں سنت کا معنی طریقہ ہے لہذا اس اعتبار سے اس میں وارد آپ کا قول وعمل آپ کا طریقہ ہے جسے سنت کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی تعریف میں علمائے حدیث وعلمائے اصول نے جملہ مختصرات ومطولات میں ان دونوں اصطلاحوں کا مشترکہ مفہوم بیان کیا ہے ۔ جن میں علامہ ابن حزم [2] علامہ بیضاوی [3]علامہ شاطبی،[4] علامہ زین الدین حلبی [5] علامہ جرجانی[6] علامہ سخاوی [7]حافظ ابن حجر عسقلانی[8] علامہ عبد العزیز البخاری[9] نواب صدیق حسن خاں [10]رحمہم اللہ أجمعین وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
[1] سنن ابی داؤد :كتاب السنة ، باب في لزوم السنة. سنن ترمذي : كتاب العلم ، باب ماجاء في الأخذ بالسنة۔۔۔ [2] الإحكام في أصول الأحكام 2/6 3 [3] منهاج للبيضاوي ص : 61 4 [4] الموافقات 4/3 5 [5] رسالة أصول ص : 16، 6 [6] تعريفات ص:82،7 [7] فتح المغيث للسخاوي ، 1 / 13،8 [8] فتح الباري 13/ 246،9 [9] التحقيق شرح منتخب الحسامي، ص:147،0 [10] حصول المأمول في علم الأصول ، ص 22