کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 20
ان میں چند قابل ذکردرجِ ذیل ہیں ۔
صحیح ، حسن ، ضعیف ، مسند ، متصل ، مرفوع ، موقوف ، مقطوع ، مرسل ، منقطع ، معضل ، تدلیس ومدلس کا حکم ، شاذ ، منکر ، اعتبار متابعات شواہد ، زیادات ثقات اور اس کا حکم ، افراد ، حدیث معلل ، مضطرب ، مدرج ، موضوع ، مقلوب ، کی معرفت ۔
نیز :جس راوی کی روایت قبول کی جاتی ہےاور جن کی رد کی جاتی ہیں ان کی صفات ، کتابت حدیث ، آداب محدث ،محدثیں کے القابات کی پہچان ، رواۃ اور علماء کے طبقات کی پہچان ، ان ثقات کی پہچان جنہیں آخر عمر میں اختلاط یا حافظ کمزور ہوگیا تھا ۔ راویوں کی تاریخ وفات ، راویوں کے ملکوں اور شہروں کی معلومات الغرض کوئی ایسا پہلو نہیں کہ انسانی عقل سوچے اور اس میں موجود نہ ہو ۔ یہ سب اس بات کی گواہی ہے کہ یہ تمام کام باری جل وعلا کی حفظ وعنایت اور اس دین کی حفاظت کیلئے انجام پایا ہے جو کہ ہمارے پاس قرآن وحدیث کی شکل میں موجودہے ۔( تفصیل کیلئے دیکھئے ابن صلاح کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث)
حاصل کلام :
صحابہ کرام ، تابعین ومحدثین حفاظتِ دین کیلئے یہ خدمات انجام دے کر ہم پر بہت بڑا احسان اور قرض چھوڑ گئے جسے ہم ساری زندگی بھی اس علم کی خدمت میں گذار دیں تو بدلہ نہیں دے سکتے ۔ اور نہ یہ قرض اتار سکتے ہیں ۔ مگر بالعموم عوام الناس میں مشاہدہ یہ کیا گیا ہے کہ وہ کسی ٹی وی چینل پر کسی بے ڈھنگے محقق ، ڈسکو مولویوں ، دین کا مذاق اڑانے والے نام نہاد مذھب پرستوں کا کوئی پروگرام سن لیں تو اپنے ذہن میں حدیث وسنت ، دین ومذہب سے متعلق چند شبہات بٹھا لیتے ہیں اور پھر لگتے ہیں ان کا پرچار کرنے ۔ فلان نے ایسے کہہ دیا اور فلاں نے ایسے ، اس نے یہ دلیل دی اور فلاں نے وہ ۔ یہ سب ایمان کی کمزوری کی علامات ہیں ۔ ہم سب کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے ۔
جب ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھا ہے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات میں شک کرنا یا دین کے کسی جزو پر تنقید کو اپنے دل میں جگہ دینا نفاق کی دلیل ہے ۔ اس ایمان کی بختگی کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی تاریخ پڑھیں ۔ اپنے دین اور اپنے صحابہ ، تابعین محدثیں کی ان جہود کا ذرا جائزہ لیں کہ انہوں نے کس طرح اس دین کو ہم تک پہنچایا ۔ ہم ہیں کہ بجائے ان کے مشکور ہونے کے ، ان کیلئے دعائیہ کلمات کہنے کے اپنے