کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 196
ذکر کیا جاتاہے جو آنے والے اس سڑے ہوئے سیلاب کے سامنے بند باندھ سکیں :
1.ہرآدمی اپنے اور اپنے گھر کی حد تک ضرور کچھ نہ کچھ اثر رکھتا ہے اور اپنے زیر اثر حلقے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے کا ہر شخص مکلف بھی ہے، گھر کی بیٹی، بہن، بیٹے، بھائی اور افرادِ خانہ کو نئی تہذیب کی اس سڑاند سے محفوظ رکھنا، گھر کے ہرباشعور بڑے کی ذمہ داری بنتی ہے، اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ”اے ایمان والو! اپنے اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے“۔ افراد معاشرے سے اور معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور ایک صالح معاشرہ، فرد کی ذمہ داری کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ جب تک فرد میں برائی روکنے کا احساس پیدا نہ ہوگا، جب تک اس کے دل میں معمارانِ ملت کے مستقبل کے لئے اس زہر قاتل تمدن پر کڑھن پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک انسداد فحاشی وبے دینی کا صحیح سدباب نہیں ہوسکتا۔ برائی کے عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرنے کے بجائے، معاشرہ اس کو یکسر رد کردے اور وہ اسے اسی وقت رد کرے گا جب معاشرے کے افراد کو اپنے دین ، اپنی تہذیب اور اپنی روایات اور تعلیمات کی فکر ہوگی۔
2.شہروں کے اندر خیر وبھلائی کی قوتیں ہی لوگوں میں یہ فکر واحساس پیدا کرسکتی ہیں ، مساجد کے ائمہ، اصلاحی مجالس کے واعظین اور دعوت وتبلیغ کے مبلغین اگر پوری دل سوزی کے ساتھ فواحش ومنکرات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات لوگوں کے سامنے بیان کریں اور صحافی واہل قلم مجلات واخبارات کے صفحات پر ”ہوشیار باش“ کی صداؤں کو عام کرنے لگیں تو اس سے عام لوگوں میں انسداد فواحش کا جذبہ بیدار ہوگا۔
3.بے دینی اور فحاشی کی روک تھام کے لئے ان اداروں پر دباؤ ڈالنا بھی بہت ضروری ہے جو اس کے پھیلانے اور عام کرنے میں سرگرم ہیں ، قطع نظر اس کے کہ پس منظر میں کون سی قوتیں کار فرما ہیں ، جن اداروں سے براہ راست شرپھوٹ رہاہے، ان کی سرکشی کو لگام دیئے بغیر یہ وبا رکے گی نہیں ۔ ان اداروں پر دباؤ ڈالنے کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ شہر کے معززین، ان اداروں کے ذمہ داروں سے مل کر انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کریں اور ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قانون ہاتھ میں لئے بغیر جائز طریقے سے ان اداروں کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایاجائے۔ یہ کام وہ اسلامی جماعتیں بہت آسانی کے ساتھ کرسکتی ہیں جن کے پاس کارکنوں کا ایک منظم لشکر موجود رہتا ہے۔
4.اسمبلیوں میں دینی ذہن رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، بے حیائی اور بے دینی کی موجودہ لہر کے خلاف اس قومی پلیٹ فارم سے بھی موثر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو پالیسی ساز ذہن