کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 185
ایڈیشن، رجب 1375ھ جنوری 1956ء سیف اسلام خاں (جامعی) نے الجمعیۃ پریس دہلی میں چھپوا کر بیت الحکمت دہلی(ہند) سے شائع کی۔
اس کتاب کا تعارف پیش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ مؤلف کتاب پروفیسرمحمد اجمل خاں مرحوم کے بارے میں بتایا جائے کہ ان کی زندگی کا حدود اربعہ کیا ہے ۔ شورش کاشمیری مرحوم اپنی کتاب ’’ابوالکلام آزاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’ پروفیسر محمد اجمل خاں مولانا کے پرائیویٹ سکریٹری تھے ۔ الہ آباد یونیورسٹی میں اُستاد رہے پھر علی گڑھ میں کچھ عرصہ گزارا وہاں سے رابندرناتھ ٹیگور کے شانتی نیکقن میں چلے گئے ۔معلوم نہیں مولانا سے کس سال وابستہ ہوئے ایک دفعہ پرائیویٹ سکریٹری ہوگئے تو مولانا کی وفات تک ساتھ رہے اجمل خود ایک فاضل انسان تھے۔ اُردو ،فارسی،عربی اور انگریزی میں خصوصی ملکہ تھا۔ مولانا سے متعلق ایک نا تمام سا مضمون’’اُردو ادب علی گڑھ‘‘ کے آزاد نمبر میں لکھا’’آجکل‘‘ دہلی میں بھی ایک واجبی سا مضمون تحریر کیا۔ مولانا کے نام بعض خطوط اور ان کے جوابات کا ایک کتابچہ ’’ملفوظاتِ آزاد‘‘ مرتب کیا ، اور کئی ناشروں نے چھایا۔‘‘
اجمل خاں خود صاحب قلم تھے ، ان کے قلم سے ’’غبارخاطر‘‘کا دیباچہ معمولی چیز نہیں ۔ مولانا کی وفات کے بعد ’’سائیتہ اکیڈمی دہلی‘‘ کے سکریٹری بنائے گئے، حتیٰ کہ راجیہ سبھا کے ممبر ہوگئے لیکن ان سے مولانا کے متعلق ہر توقع رہ گئی تاآنکہ واصل بحق ہوگئے ۔ احقر سے ان کے تعلق دوستانہ ہی نہیں برادرانہ تھے۔ [1]
تعارف کتاب
مصنف غلام نے ’’حرف اول‘‘ کے عنوان سے اس کتاب کی تالیف کا پس منظر بیان کیا ہے جو پانچ صفحات پر محیط ہے ، اس کا ایک اقتباس درج ذیل ہے ۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ
’’بڑے آدمیوں کی زندگی کے حالات جاننا بالکل بے سود ہے اگر ہم اُن کی زندگی کو نمونہ بنا کر اپنی زندگی کو اس سانچے میں نہ ڈھالیں اور اپنی زندگی بھی ویسی ہی شاندار نہ بناسکیں ۔رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے
[1] ابو الکلام آزاد ، ص:39۔40