کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 182
یہی حال ہے۔ اس کے بھی چند مرکزی مقاصد ومہمات ہیں اور جب تک وہ صحیح طور پر نہ سمجھ لیے جائیں اس کی کوئی بات صحیح طور پر سمجھی نہیں جاسکتی۔‘‘ (ترجمان القرآن ) سورہ بقرۃ کی مذکورہ بالا آیت نمبر 62 کی تفسیر کے سلسلہ میں مولانا محمد ابراہیم میری سیالکوٹی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر’’واضح البیان فی تفسیر ام القرآن‘‘ میں ہدف تنقید بنایا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے یہ بات مولانا آزاد کے نوٹس میں بذریعہ خط لائی تھی لیکن مولانا ابو الکلام نے اس پر کوئی توجہ نہ کی اس لیے کہ مولانا آزاد نے مولانا غلا م رسول مہر کو اپنے خط جو یہ 15 جنوری 1936ء کو لکھا تھا کہ ’’ 1918ء سے میں نے جن تین باتوں کا عہد کیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی شخص کو جو مناظرانہ طریقہ سے میر ےخلاف کچھ لکھے گا نہ تو جواب دوں گا اور نہ اپنی شکایت سے اپنے نفس کو آلودہ ہونے دوں گا۔ ‘‘[1] جب مولانا آزاد کے خلاف آیت نمبر 62 کی تفسیر کے سلسلہ میں فضامکدّر ہوتی نظر آئی تو مولانا مہر نے مولانا ابو الکلام آزاد کو اس سے مطلع فرمایا تو مولانا آزاد نے مولانا مہر کو لکھا ۔ ’’ جس طرح اصل دین کی دعوت کامل ہوچکی اور وہ ان تمام پچھلی دعوتوں کا جامع اور مشترک خلاصہ ہےٹھیک اسی طرح شرع اور منہاج کا معاملہ بھی کامل ہوچکاہے اور وہ تمام پچھلے شرائع کے مقاصد وعناصر پر جامع وحاوی ہے البتہ یہ ظاہر ہے کہ اس بحث کا محل تفسیر سورۃ فاتحہ یا سورۃ بقرۃ نہیں سورۃ احزاب ہے۔[2] مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اپنے عقیدہ کے بارے میں اپنے اخبار ہفت روزہ الہلال جلد 4، نمبر1،ص:24 پرفرماتے ہیں ۔ ’’ میں الحمد للہ اپنے اندر اتنی ایمانی قوت رکھتاہوں ، کہ جس امر کو حق تسلیم کر لوں اس کا اُسی وقت اعلان بھی کردوں ۔ میں اعتقاد توحید ورسالت اور عمل صالحہ کو نجات کے لیے کافی سمجھتاہوں اس
[1] عقیدہ ختم نبوت ، ص:26 [2] عقیدہ ختم نبوت،ص:16