کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 181
اس کے حاشیہ میں یہ لکھ دیتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایمان کا مفہوم بالکل متعین ہوگیا ہے اور اب اس کا مفہوم یہ ہے نجات اخروی کے لیے اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا لازم،لابد اور ناگزیر ہے۔ قرآن میں اکثر جہاں بھی ایمان لانے کی دعوت ملے گی وہاں عموماً ایمان کی تفاصیل نہیں ملیں گی ۔ اٰمِنُوا میں ان تمام امور پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔جن پر جگہ جگہ قرآن ایمان لانے کی مختلف اسالیب سے دعوت دیتاہے لہٰذا ایمان کی تعریف ہی یہ قرار پاگئی ہے کہ اللہ پر ایمان، اس کی توحید کے ساتھ، اس کی صفات کمال پر ایمان ، یوم آخرت پر ایمان، جزاوسزا پر ایمان ، جنت ودوزخ پر ایمان ، فرشتوں پر ایمان ، وحی پر ایمان ،کتابوں پر ایمان،نبوت ورسالت پر ایمان ، اور اس پر ایمان کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور آخری رسول ہیں اور قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ رسالت کا دور جاری وساری رہے گا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ مولانا آزاد ان تمام باتوں کو مانتے تھے لوگوں نے مولانا سےپوچھا ، تو مولانا نے جواب دیا کہ ’’میرا عقیدہ وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا ہے ‘‘ اور وہ عقیدہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن کے نزول کے بعد اب نجات اخروی کا دارومدار صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور قرآن کی پیروی پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے رسولوں پر ایمان اور سابقہ کتب سماوی پر ایمان اور ان کے مطابق عمل سے اب نجات اخروی نہیں ہوگی۔ پھر مولانا سے سوال کیاگیا کہ آپ نے یہاں یہ بات کیوں نہیں لکھی۔ مولانا نے جواب دیا کہ اس مقام پر آیت میں جوبات فرمائی گئی ہے میں نے اتنی ہی بات پر اکتفاء کیاہے۔[1] قرآن مجید کے معانی ومطالب کو سیکھنے کے لیے کچھ اصول وضوابط ہیں ۔ مولانا آزاد اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’ہر کتاب اور تعلیم کے کچھ مرکزی مقاصد ہوتے ہیں اور اس کی تمام تفصیلات انہی کے گرد گردش کرتی ہیں جب تک مراکز سمجھ میں نہ آئیں ۔دائرہ کی کوئی بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔ قرآن کا بھی
[1] مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم سیرت وشخصیت اور علمی وعملی کارنامے ، ص: 55۔56