کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 180
بیعت امامت یہ رسالہ دراصل سورئہ بقرۃ کی آیت (62) کی تفسیر کے سلسلہ میں ترتیب دیاگیا جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔ ﴿ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللّٰه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴾ ( البقرۃ:62) ’’جولوگ(پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاچکے ہیں وہ ہوں یا وہ لوگ ہوں جو یہودی ہیں یا نصاریٰ اور صابی ہوں (کوئی ہوں اور کسی گروہ بندی سے ہوں ) لیکن جو کوئی بھی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا ) اور اس کے اعمال بھی اچھے ہوئے تو وہ اپنے عمل کا اجر اپنے پروردگار سے ضرور پائے گا اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا کھٹکا ہوگا اور نہ کسی طرح کی غمگینی۔ ‘‘[1] مولانا ابو الکلام آزاد کا حاشیہ اس اصل عظیم کا اعلان کہ سعادت ونجات ایمان سے وابستہ ہے نسل وخاندان یا مذہبی گروہ بندی کو اس میں کوئی دخل نہیں ۔ یہودی جب ایمان سے محروم ہوگئے تو نہ تو اُن کی نسل ان کے کام آئی نہ یہودیت کی گروہ بندی سومند ہوسکی۔ خدا کے قانون نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ کون ہیں اور کس گروہ بندی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ صرف یہ دیکھا کہ عمل کا کیا حال ہے اور پھر جب آزمائش عمل میں پورے نہ اُترے تو مغضوب ونامراد ہوگئے۔[2] مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم لکھتے ہیں کہ : مولانا ابو الکلام آزاد کی اس تحریر پر مخالفین نے بڑا ہنگامہ کیا اور اس کوخوب اچھالا اور اس میں زیادہ حصہ غلام احمد پرویز نے لیا اور طلوع اسلام کے ذریعہ خوب پروپیگنڈا کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے اس آیت کا ترجمہ لفظ بہ لفظ کر دیا تھا۔ بات صرف اتنی تھی کہ اگر مولانا آزاد
[1] ترجمان القرآن 1/267 [2] ترجمان القرآن 1/267