کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 18
سے بسر ہوا ۔
صحابہ کے بعد تابعین کا دور شروع ہوا اس دور میں علم اسناد کی اہمیت واضح ہونا شروع ہونے لگی۔ خلیفہ اموی جناب عمر بن عبد العزیز اور ابن شھاب زھری رحمہما اللہ کی تدوین سنت میں خدمات جلیلہ نمایاں ہوئیں ۔ ابن شھاب زھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ہمیں عمر بن عبد العزیز نے سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کرنے کا حکم دیا لہذا ہم نے انہیں دفتر از دفتر محفوظ کرلیا ۔انہوں نے اپنے ہر امیر کے پاس ایک ایک رجسٹر روانہ کردیا ۔ ‘‘[1]
دوسری صدی ہجری میں : اس دور میں حدیث کے مختلف فنون میں تصنیفات اور کتابیں لکھی جانے لگیں ۔
اس دور میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کے اقوال اور تابعین کے فتاوی بھی جمع کئے جانے لگے ۔ جبکہ اس سے قبل صحیفوں میں محض احادیث کو ہی لکھا جایا کرتا تھا ۔
الغرض اس دور میں جو کتابیں لکھی گئیں ۔ انہیں مختلف نام بھی دئے گئے ۔
جن میں سب سے پہلی کتاب موطا امام مالک رحمہ اللہ کی ہے ۔ جبکہ دیگر کتابوں میں مصنف ۔ جامع ۔ سنن۔ جہاد ۔ زھد ۔ سیر ومغازی وغیرہ شامل ہیں ۔
تیسری صدی ہجری میں : اس زمانے کی خصوصیات یہ تھیں کہ
اس صدی میں مصنفاتِ حدیث میں ایک نئی قسم کا اضافہ ہوا ۔ اس دور میں فن حدیث اپنے کمال کو پہنچ چکا تھا ۔یہ دور حفاظِ حدیث ، نقاد ، اور بلند پایہ محدثین کا دور ہے ۔ جن میں احمد بن حنبل ، علی ابن مدینی ، یحی بن معین ، امام بخاری ، امام مسلم ، جیسے نام شامل ہیں جن کے ہاتھوں حدیث کے بہت سے علوم وفنون کی بنیاد رکھی گئی ۔ بالخصوص علم جرح وتعدیل کا علم اس دور میں نمایاں خصوصیات کا حامل رہا ۔ اس دور کو علوم اسلامیہ کے حوالے سے عموما اور علوم سنت کے حوالے سے خصوصا ایک سنہری دور قرار دیا جاتاہے ۔ جس میں گراں قدر تصنفی اور فنی خدمات انجام کی گئیں اور بہت سے علوم مدون ہوئے ۔
تدوین حدیث چوتھی اور پانچویں ہجری میں :
اس دور میں علم حدیث میں دو اور قسم کے علوم کا اضافہ ہوا جن میں پہلی قسم : مصطلح حدیث کی کتابوں کی
[1] جامع بيان العلم وفضله 1/76