کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 174
اس کے بعد اور تمام بیویوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور سب نے یہی جواب دیا ۔ ( صفحہ : 390)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مفصل بیان :
ام عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے گفتگو کی اور فرمایا کہ میں تجھ سے ایک اہم امر کا ذکر کرتاہوں لیکن کوئی مضائقہ نہیں اگر اس کا جواب دینے میں جلدی نہ کریں اور اپنے والدین سے بھی رائے پوچھ لیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ میرے والدین کبھی ان سے علیحدگی کی رائے نہ دیں گے۔ بہر حال اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت تخییر پڑھی اور دنیا اور آخرت کی دونوں راہیں پیش کر دیں میں نے عرض کیا ، کیا یہی بات تھی ، جس کےلیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے والد سے پوچھ لو، بھلا اس میں پوچھنے کی کونسی بات ہے ۔ اس کا جواب توصرف یہی ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیتی ہوں ، اور وہ دنیا کی جگہ آخرت کو لیتی ہوں ۔ [1] (صفحہ:490)
بصیرت کا ایک نکتہ
یہ حکم اگرچہ صرف ازواج مطہرات کے متعلق تھا مگر دراصل اس میں اس راہ کے لیے ایک عام بصیرت بھی پوشیدہ ہے۔ اس واقعے کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ دو چیزیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں ۔ جو دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور مرضات کے طالب ہوں انہیں چاہئے کہ پہلی ہی نظر میں دنیا اور اہل دنیا کی طرف سے دست بردار ہوجائیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف تو اللہ کی محبت کا بھی دعویٰ ہو دوسری طرف زخارف دنیوی کے پیچھے بھی سرگرداں رہیں ؎
سرمدگلہ اختصار مے باید کر د یک کارازیں دوکار مے باید کرد
یاتن بہ رضائے یار مے بایدداد یا قطع نظر زیار مے باید کرد
(صفحہ : 491)
[1] صحیح بخاری : کتاب تفسیر القرآن ،باب قولہ یا ایہا النبی قل لأزواجك