کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 173
دو راستے
ازواج مطہرات کے متعلق یہ آخری اور الٰہی فیصلہ تھا ۔ چونکہ توسیع نفقہ اور طلب اسباب آرام وراحت کے لیے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زور ڈالا تھا اور اس مطالبے پر تمام بیویاں متفق ہوگئی تھیں حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایلاء کر کے ایک ماہ کے لیے ان سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ایک مرتبہ ہمیشہ کے لیے اس کا فیصلہ ہوجائے اور دونوں راستے ان کے آگے پیش کر دیئے جائیں یا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں آرام وراحت دنیوی کو بالکل خیر باد کہیں یا دنیا کےا نعام ولذائذ کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت ترک کردیں ۔
چنانچہ اس آیت میں فرمایا کہ دنیا اور آخرت دونوں تمہارے سامنے ہیں اگر دنیا کی طلب ہے تو صاف صاف کہہ دو تمہیں رخصت کے عمدہ جوڑے پہنا کر اپنے گھر سے باعزت واحترام رخصت کر دوں لیکن اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت چاہتی ہو، تو ان زخارف دنیوی کی خواہشوں کو یک قلم جواب دے دو کیونکہ ایسا کرنے والوں کے لیے اللہ کے ہاں بڑا ہی اجر اور ثواب ہے ۔ (صفحہ : 489)
مصالح وحکم تخییر
اس حکم کے نزول میں فی الحقیقت بہت سی عظیم الشان مصلحتیں پوشیدہ تھیں یہ ازواج مطہرات کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی دنیا کو دکھلا ناتھا کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں شریک کیا ہے ان کے تزکیہ باطنی اور خدا پرستی کا کیا حال ہے اگر اس طرح کے واقعات پیش نہ آتے تو ازواج مطہرات کا تزکیۂ نفس اور ان کے دلوں کی محبت الٰہی کیونکر دنیا کے سامنے واضح ہوتی۔
چونکہ توسیع نفقہ کی خواہش میں حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما نے زیادہ حصہ لیا تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور اس آیت کے حکم سے مطلع کیا ساتھ ہی فرمایا کہ اس معاملے میں جلدی نہ کرو بہتر ہوگا کہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلو۔ حضرت عائشہ بے اختیار بول اٹھیں کہ بھلا اس میں مشورہ کرنے کی کیا بات ہے جب اللہ نے دوراہیں میرے سامنے واضح کردی ہیں تو اس کا جواب ہر حال میں صرف ایک ہی ہے دنیا اور دنیا کی نعمتیں آپ کی رفاقت کے سامنے کیا شے ہیں میں سب کچھ چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت اختیار کرتی ہوں