کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 172
ایلاء کی تشریح
ایلاء اصطلاح فقہ وحدیث میں شوہر اور بیوی کی اس علیحدگی کو کہتے ہیں جو بغیر طلاق کے عمل میں آئے اور جس کی صورت یہ ہے کہ شوہر غصے کی حالت میں کوئی قسم کھا بیٹھے کہ میں اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤنگا ۔ اس کا ماخذ قرآن کریم کی یہ آیات کریمہ ہیں :
﴿ لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللّٰه غَفُورٌ رَحِيمٌ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللّٰه سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ (البقرۃ:226۔227)
’’جولوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے کی قسم کھا بیٹھیں ، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے اگر اس عرصے میں رجوع کرلیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں تو بھی اللہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ‘‘ (صفحہ :477)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلاء
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ایک مرتبہ ایلاء کی صورت پیش آئی آپ نے عہد فرمایا تھا کہ ایک ماہ ازواج مطہرات سے کوئی تعلق نہ رکھیں گے ۔ ( صفحہ :477)
آیت تخییر
﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلا وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰه وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ فَإِنَّ اللّٰه أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ﴾ (الاحزاب:28۔29)
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں کو کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو صاف صاف کہہ دو کہ میں تمہیں اچھے طریقے سے رخصت کردوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی طالب ہو ، تو پھر اسی کی ہو رہو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیکی کرنے والوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘