کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 169
اور اس کی ابتداء شک اور تردد سے کیا کرتے تھے اور جب تک یقین کرنے کے لیے مجبور نہ ہوجائیں یقین نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس چیز نے اُن کی عملی زندگی کو بھی(یعنی کاروبار وانتظامات کی زندگی کو)بہت نقصان پہنچایا اور وہ کوئی عملی کام جم کر نہ کر سکے۔ ندوہ کے معاملے میں جو الجھاؤ لوگوں نے ڈالے وہ اُن کے اسی ضعیف یقین وعدم حزم صلابت ارادہ کا نتیجہ تھا ورنہ اُن سے مخالفت کرنے والوں میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اُن کو اُن کی جگہ سے ہٹا سکتا۔ بہر حال اُنہوں نے اس خیال پر بہت ہی پسندیدگی ظاہر کی مگر وہی اپنی عادت کے مطابق اظہار شک ونااُمیدی کہ اتنا مواد صرف قرآن سے کہاں نکل سکتاہے کہ سیرت کا ایک باب مرتب ہوسکے لیکن جب میں نے بہت اصرار کیا تو کہا :
اچھا تم اگر یہ ٹکڑا مرتب کردو تو سیرت کے ساتھ شامل کر دیاجائے ۔
آخری یکجائی دہلی میں ہوئی تھی اس وقت انہوں نے کہا :
’’اب مجھ کو بھی خیال ہوجاتاہے کہ یہ ممکن ہے اور بہت ہی اہم چیز ہوگی۔‘‘
چنانچہ دہلی سے آکر میں نےکچھ وقت اس میں صرف کیا اور ایک مستقل سیرت نبویہ مجرد قرآن کریم سے ماخوذ ومستنبط شروع کردی ۔ جوں جوں قدم آگے بڑھتا گیا۔ نئے نئے دروازے کھلتے گئے اوراُمید وتوقع سے کہیں زیادہ کامیابی ہوئی ۔ گویہ حقیقت پہلے سے پیش نظرتھی حتیٰ کہ اس بارے میں بڑا ذخیرہ آیا ت کا ذہن میں مستحضر تھا لیکن یہ بات تو کبھی وہم وگمان میں بھی نہیں گزری تھی کہ جس کتاب کو بظاہر جابجا ذکر احکام ومسائل وقصص گزشتگان سے مملوء پاتے ہیں اس میں اس قدر وافر ذخیرہ خاص شخص رسالت کے حالات ووقائع کا بھی موجود ہوگا ۔ کتاب کے مرتب ہوجانے کے بعد جو دیکھا تو ایک عجیب عالم نظر آیا، حیات وسیرت کا کوئی ضروری ٹکڑا ایسا نہیں ہے جس کے لیے قرآن میں ایک سے زیادہ آیات نہ ہوں اور پھر نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بلکہ صحابہ کرام کے حالات وخصائص کا بھی کافی ذخیرہ موجود ملا۔ [1]
نوٹ : مولانا ابو الکلام آزاد کے پرائیویٹ سکریٹری محمد اجمل خان نے ایک کتاب بنام ’’سیرت قرآنیہ سیدنا رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ مرتب کی۔ اس کتاب کا تعارف مقالہ کے آخر میں مولانا کی تصانیف کے بعد ان شاء اللہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ (عراقی)
[1] تذکرہ ، ص:204۔205 ، مطبوعہ مکتبہ جمال لاہور ، 1999ء