کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 152
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين محمد وعلى آله
وأصحابه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين۔
بےشک حسن خاتمہ( یعنی انسانی زندگی کا اچھا ئی پر انجام پذیر ہونے) کے لئے تیاری کرنا افضل ترین عمل ہے جس کا اہتمام سلف صالحین بھی کیا کرتے تھے، اور پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بارے میں ارشاد فرمایا :
[إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخوَاتِیْمِ ] [1]
ترجمہ: ’’اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔‘‘
نیزایک اور روایت میں فرمایا: ’’ایک شخص اہل جہنم والے اعمال کررہا ہوتا ہے یہاں تک کہ (جہنم اس کے اتنی قریب ہوجاتی ہے کہ) اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے لیکن اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جنتيوں والے کام کرليتا ہے اورجنت میں داخل ہوجاتا ہے۔جبکہ ایک شخص اہل جنت والے اعمال کررہا ہوتا ہے یہاں تک کہ (جنت اس کے اتنی قریب ہوجاتی ہے کہ) اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے لیکن اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ جہنمیوں والے کام کر بیٹھتا ہے اور جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔‘‘[2]
لہٰذاہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے خاتمے کی فکر کرے اور حسن خاتمہ کے اسباب اختیار کرے اور اس بات کا خيال بہت ضروری ہے کہ حسنِ خاتمہ کے لئے مسلمان اور موحد ہونا ضروری ہے نیز ہر وہ عمل جس کے کرنے والے کو اللہ کی رضااورجنت کی بشارت یا ضمانت دی گئی ہو یا گناہ معاف ہونے کی خوشخبری سنائی گئی ہویا اس عمل کی کسی ایسے عمل سے تشبیہ دی گئی ہو جو جنت میں جانے کا سبب ہو تو وہ عمل حسن خاتمہ کے لئےایک ذریعہ ہے۔اگرچہ ہر نیک کام کو اپنانا اور ہر برائی کو چھوڑنا حسن خاتمہ کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے لیکن اس موضوع میں حسن خاتمہ کے چند اسباب یاد دہانی کے طور پر ذکر کئے جارہے ہیں ، اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
[1] ابن حبان:کتاب البر والإحسان، باب ما جاء في الطاعات وتوابعها
[2] البخاري: کتاب القدر، باب في القدر