کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 15
’’میری طرف سے بیان کرو چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو ترو تازہ رکھے جس نے میری بات سنی پھر اسے یاد کیا اور پھر ویسے ہی اسے آگے پہنچا دیا ۔۔۔۔‘‘[1]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں صحابہ کرام نے ان شرعی احکامات کو آگے پہنچانا اپنا شرعی اور دینی فریضہ سمجھا ۔اور محض پہنچایا ہی نہیں بلکہ جہاں برائی دیکھی اسے ختم کرنے کی کوشش بھی کی تاکہ دین اپنی اصل حالت میں محفوظ رہ سکے ۔حتیٰ کہ انہیں اگر کبھی کوئی خرابی، بدعملی یا کوتاہی نظر آتی تو فوراً ٹوک کر کہہ دیا جاتا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تو اس طرح تھا۔ جیسا کہ ایک مرتبہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ گٹھلیوں پر وِرد کررہے ہیں تو انہوں نے اس پر تعجب اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
[ويحکم يا أمة محمد ما أسرع هلکتم، هؤلاء صحابة نبيکم متوافرون وهذه ثيابه لم تبل واٰنيته لم تکسر ... أَو مفتتحوا باب ضلالة] [2]
’’اے امت ِمحمد! تم پر افسوس کہ تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف جارہے ہو حالانکہ ابھی تو تم میں صحابہ کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں ... کیا تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو؟‘‘
تعلیم وتعلم :
یہ باب اتنا وسیع ہے کہ اس کیلئے مجلدات کی ضرورت ہے ۔ مگر یہ بات واضح ہے کہ اصحاب صفہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ایک تعلیمی مدرسہ قائم کردیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کو مختلف علاقوں میں وہاں کے لوگوں کو تعلیم دینے کیلئے روانہ کیا ۔ جیسا سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو آپ نے یمن روانہ کیا ۔‘‘[3]
[1] سنن ابی داؤد : کتاب العلم ، باب فضل نشر العلم
[2] مسند دارمی، کتاب العلم (المقدمۃ) باب فی کراھیۃ أخذ الرأی
[3] مسند أحمد والدارمي وأبو داود والترمذي .