کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 148
قارئین کرام آپ نے ان مثالوں کو ملاحظہ فرمایا کہ ان تمام عبارات میں موصوف خود بھی لفظ ’’سگ ‘‘یا ’’کتے‘‘کو مذمت اور تذلیل کے پیرائے میں لا رہے ہیں ۔اور دوسری طرف یہی لفظ اپنے لئے بطور عاجزی استعمال کرنا۔ اور تیسرا رخ یہ کہ پھر بیسیوں القابات بھی اپنے ساتھ جوڑنا ،اور ایک رخ یہ بھی ہے کہ بعض مقامات ایسے ہیں کہ جہاں احمد رضا قادری صاحب نے خوداپنے لئے اسی لفظ کو استعمال کیا۔ موصوف نے ان کے ایسے الفاظ کو بدلا ،مثال کے طور پر احمد رضا صاحب کے یہ اشعار پیش کرتے ہیں :
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں
موصوف ،احمد رضا صاحب کے مذکورہ بالا اشعار پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں : مقطع میں اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے ازراہ تواضع اپنے آپ کو’’ کتا‘‘ فرمایا ہے ۔ لیکن میں نے ادباً اس جگہ شیدا لکھ دیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔‘‘[1]
آپ اندازہ لگائیں کہ موصوف ،احمد رضا صاحب کے بارے میں تو کتا لکھتے ہوئے بے ادبی محسوس کرتے ہیں جبکہ وہ لفظ خود انہوں نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔اور دوسری طرف لکھتے ہیں جیسا کہ پہلے گزر آیا ہے کہ’’ بطور عاجزی اپنے لئے اس طرح کے الفاظ کا استعمال بزرگوں میں شروع ہی سے رائج ہے۔‘‘[2]
اب کیا اس جملے میں بے ادبی نہیں ہے کہ ایک تو جھوٹ کہ یہ کہنا کہ شروع ہی سے رائج ہے نیز گستاخی و بے ادبی کا پہلو بھی واضح ہے افسوس ہے کہ ا لیا س قادری صاحب کے لئے احمد رضاصاحب،’’شروع ہی سے بزرگوں ‘‘والے بزرگوں سے بھی بڑھ گئے۔
نیز اس جملے میں دوسری بے ادبی یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی تمام حرام کردہ چیزوں سے دور رہنے والے تھے ۔انکی طرف حرام کی نسبت کی گئی ہے اس طرح کے جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ کتا رکھنا وغیرہ حرام و ممنوع ہے اب یہ کہنا کہ غوث پاک کے کتے یا کسی ولی کے کتے تو ایک حرام چیز کی اس جملے میں انکی طرف نسبت ہے اور اولیاء کی طرف حرام کاموں کی نسبت کرنا یقیناً ان کی گستاخی ہے، جو کہ اس سوچ کے تمام لوگ مسلسل
[1] فیضان سنت : 229
[2] بیانات عطاریہ حصہ سوم :529