کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 147
کرتا ہے تو ہم بس یہی کہیں گےکہ
مانو نہ مانو جان جاں تمہیں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آخر میں یہ بات بھی بیان کر دیتے ہیں کہ موصوف نےلفظ سگ مدینہ کواپنے لئے کئی بار استعمال کیا جس کی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں ۔ اور دوسری طرف اسی لفظ کتا یا سگ کو کہاں استعمال کیا ؟اس کی مثالیں بھی دیکھیں ۔ لکھتے ہیں :’’ سگ ایران خسرو پرویز کے پاس ۔۔‘‘الخ [1]
آگے جا کر لکھا ’’ اس ظالم و گستاخ نے نامہ مبارک کو دیکھتے ہی غصہ سے پھاڑ ڈالا اور اس بدزبان نے کہا... پرویز کا بے ادبانہ جملہ نقل کرنے کی ہمت نہیں ، لہٰذا حذف کیا جاتا ہے ۔ (سگ مدینہ عفی عنہ)‘‘ [2]
اس عبارت میں لفظ’’سگ ‘‘خسرو پرویز کے لئے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خط مبارک کو پھاڑا اور گستاخی کی اور پھر یہی لفظ’’ سگ‘‘ اپنے لئے اگلی ہی عبارت میں استعمال کر رہے ہیں ۔
اسی طرح یہی خسرو پرویز کے لئے احمد رضاصاحب نے بھی سگ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔[3]
اسی طرح موصوف نےایک عنوان قائم کیا کہ گندی باتیں کرنے والا حشر میں کتے کی شکل میں آئے گا۔اس کے تحت نقل کیا کہ’’ ابراہیم بن میسرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فحش کلامی (بے حیائی کی باتیں ) کرنے والا قیامت کے دن کتے کی شکل میں آئے گا ۔ [4]
اسی طرح ایک جگہ خود ایک حدیث بحوالہ الترغیب والترھیب نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔’’ چغل خوری آخرت کیلئے سخت تباہ کن ہے ۔ چناچہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے : غیبت ، طعنہ زنی ، چغل خوری اور بے گناہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالی (قیامت کے دن ) کتوں کی شکل میں اٹھائے گا ۔‘‘ [5]
[1] فیضان سنت :584
[2] فیضان سنت :584
[3] فتاوی رضویہ : جلد 22صفحہ نمبر647
[4] فیضان سنت : 652
[5] بیانات عطاریہ حصہ دوم :116