کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 143
ہیں ،جن سے یہ ثابت ہوگا کہ کسی مسلمان کو کتا کہنا یا کہلوانا یا اس جیسے نازیبا الفاظ نہیں کہلوانے چاہییں ۔ سگ کہلوانے کی مذمت ، دلائل کی روشنی میں : سگ کہلوانے کے حوالے سے موصوف نے جس انداز سے اپنے مؤقف کو ثابت کیا اس کی حقیقت بیان کرنے کے بعد اس عنوان کے تحت ہم ایسے دلائل سامنے رکھیں گے جن سے یہ ثابت ہوگا کہ خود کوکتا نہیں کہلوانا چاہئیے ۔اور نہ ہی کسی دوسرے کو کہنا چاہئے۔ (1)شریعت میں برے القاب اپنانے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ﴿ وَلَاتَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾ (الحجرات : 11) یعنی : اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔ یقیناً ایک مسلمان کو کسی جانور کے نام سے بلانا یا خود کہلوانا اور جانور بھی کتا ہو ، تو یہ برا نام ہے لہذا اس کی ممانعت قرآن سے ثابت ہوئی ۔ (2)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : فقلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان صفیۃ امرأۃ وقالت بیدھا ھکذا کأنھا تعنی قصیرۃ فقال : لقد مزجت بکلمۃ لو مزج بھا ماء البحر لمزج [1] یعنی : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ تو ایسی عورت اورہاتھ سے اشارہ کیا کہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے چھوٹے قد کو بیان کر رہیں تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تونے ایک ایسا کلمہ کہہ دیا ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ بھی متغیر ہو جائے ۔ دیکھئے ! ایک کلمہ جسے کہنے والی صدیقہ کائنات ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں اور پھر مزید یہ کہ کلمہ کیا کہا ؟؟چھوٹے قد والی !!اس کلمے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتنا نازیبا کلمہ ہے کہ اس سے سمندر کا پانی متغیر ہو جائے ، حالانکہ چھوٹا قد انسان کی ایک صفت ہے اس کے بر عکس کوئی شخص خود کو جانور جیسے کتا کہلائے یا کہے یہ کلمہ کس قدر معیوب اور نازیبہ ہے اور ایسے کلموں اور الفاظ سے احتراز کتنا ضروری ہے ؟یہ اس حدیث کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
[1] جامع ترمذی:2502،کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ابو داؤد: 4875 کتاب الادب ، باب فی الغیبۃ وصححہ الالبانی