کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 142
ساتھ تشبیہ ہے کہ دنیا کی حِرص رکھنے والا اگر اس کو نصیحت کرو تو مفید نہیں ،مبتلائے حرص رہتا ہے ، چھوڑ دو تو اسی حرص کا گرفتار ۔ جس طرح زبان نکالنا کُتّے کی لازمی طبیعت ہے ۔ایسی ہی حرص ان کے لئے لازم ہوگئی ہے ۔‘‘[1] اب دیکھیں نعیم الدین مرادآبادی صاحب اسے ذلیل جانور سے تشبیہ قرار دیں اور پھر بھی کہلوانے والے خود کو کتا کہلوائیں ۔ نیز آپکی عبارت بھی کہ’’ وہ کتے کی شکل ہو کر دوزخ میں جائے گا۔‘‘[2] اس سے صاف واضح ہے کہ انسان کو کتے سے تشبیہ دینے میں اس کی تذلیل و تنقیص ہے ، کاش کہ آپ کو یہ بات سمجھ میں آجائے مگر ۔۔۔۔ آنکھیں اگر بند تو دن بھی رات ہے اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا خلاصہ : خلاصہ یہ ہے کہ صرف اس لفظ کے استعمال کو ثابت کرنےکے لئے انتھک سعی اور شرعی نصوص کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے باوجود موصوف اپنی اس کوشش میں ناکام رہے ہیں ، مثلا صحابہ کرا م کی عاجزیاں کے تحت جتنی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کاش میں پتہ ہوتا یا جنا نہ گیا ہوتا وغیرہ یہ سب بطور عاجزی وہ اپنے آپ کو قطعا ًنہیں کہلواتے تھے ،بلکہ آخرت کا خوف اور اللہ کے خوف کی وجہ سے وہ یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ کاش میں انسان کے علاوہ دوسری مخلوقات جیسے پتہ وغیرہ ہوتا کہ مجھ سے قیامت کے دن باز پرس ہی نہ ہوتی ، انکے یہ الفاظ تو اس پس منظر میں ہیں ۔مگر موصوف نے انہیں صحابہ کرام کی عاجزیاں کا عنوان دیا تاکہ عاجزی کا نام دے کر بطور عاجزی کتا کہلوانا ثابت ہو جائے مگر اس جرأت کے باوجود قرآن و حدیث اور قرون اولی میں سے وہ ایک بھی مثال ایسی پیش نہ کرسکے کہ کسی صحابی تابعی ، محدث وغیرہ نے خود کو کتا کہلوایا ہو۔ باقی جن دلائل کو پیش کیا گیا ہم نے اس کی حقیقت قارئین کے سامنے رکھ دی ہے ۔ اب ہم اپنے دلائل پیش کررہے
[1] خزائن العرفان :تحت سورۃ الاعراف آیت نمبر 176 [2] بیانات عطاریہ حصہ سوم: 553،552