کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 140
کہلواسکتے ہیں ۔اس قبیل کی عبارات سے ان کایہ مزعومہ فلسفہ کئی ایک وجوہ کی بناء پر صحیح نہیں کیونکہ : اولاً: ان سب الفاظ میں کسی صحابی نے خود کو نعوذ باللہ کتا نہیں کہا تو پھر اس کو اس موضوع سگ مدینہ کہلوانا کیسا ؟ کے تحت لانا نرا دھوکہ ہے ۔ ثانیا ً: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقینا عجز و انکساری کے پہاڑ تھے مگر یہ جملے بطور عاجزی کے نہیں کہے بلکہ ان سب کا پس منظر اور صحابہ کرام نے جس پیرائے میں ایسے جملے کہے وہ قیامت کے منظر اور خوف آخرت و خوف الہی کے باعث ہے اس سے مطلق عاجزی کشید کر کے بطور عاجزی ایسے جملے کہلوانے کا مفہوم لینا غلط ہے ۔ ثالثا : وہ یہ جملے بطور القاب کہلوایا نہیں کرتے تھے بلکہ کسی موقع پر اظہار خو ف آخرت کے طور پر کہہ دیئے۔ ان الفاظ سے یہاں تک تو کہا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام حد درجہ خوف آخرت رکھتے تھے اور اللہ کا خوف بھی ان نفوس میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا ۔لیکن موصوف نے جو کشید کیا ہے وہ غلط ہے ۔ سگ اصحاب کہف موصوف کے مبلغ علم کی مثالوں کے جھروکے قارئین نے ملاحظہ کیے۔ مزید دیکھئے کہ’’ اصحاب کہف داخل جنت ہوگا ۔‘‘یہ عنوان قائم کیا اور اپنے اس عنوان اور اپنے اس فلسفے کو ثابت کرنےکے لئے موصوف کو قرآن و احادیث سے تو کوئی دلیل نہ ملی ،بس احمد یار خان نعیمی صاحب کی بات کو نہ جانے کتنی بڑی دلیل سمجھا ہے کہ اسے پیش کردیا ۔ اس پر بھی طرہ امتیاز یہ کہ اگلا ہی عنوان یہ قائم کیا ’’سگ اصحاب کہف بلعم باعور کی صورت میں داخل جنت ہو گا ۔ ‘‘اس عنوان کے تحت احمد رضا بریلوی صاحب کا قول پیش کیا کہ’’ اصحاب کہف کا کتا بلعم بعور کی شکل بن کر جنت میں جائے گا اور وہ اس کتے کی شکل ہو کر دوزخ میں جائے گا ۔‘‘[1] تبصرہ : اس عبارت پر مناقشے سے قبل بلعم باعور کون تھا یہ جان لیں : بلعم بن باعور کون تھا ؟اس حوالے سے موصوف نے جو احمد رضا بریلوی صاحب کے حوالے سے لکھا ہے وہ
[1] بیانات عطا•ریہ حصہ سوم : 553،552