کتاب: البیان شمارہ 9-10 - صفحہ 14
سیرت وسوانح کے لیے وجود میں آیا اس کے عنوانوں میں قسم قسم کی رنگینیاں ہیں ۔[1]
مگر آج کے چند بد نصیب لوگ ان احادیث کو فارسی سازش کا شاخسانہ کہہ کر اور بعض تأویلات باطلہ کا سہارا اس بیش بہاذخیرہ حدیث کو ایک پھونک میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یا للعجب ۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
حفاظت ِ حدیث بذریعہ عمل :
یہ دینِ اسلام کا خاصہ ہی ہے کہ اس کی حفاظت محض حفظ ، اور کتابت سے نہیں بلکہ عمل سے بھی ہوئی ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہی کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنیں ، سیکھیں ، اس پر عمل پیرا ہوں ۔ حتیٰ کہ تمام شریعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں رچ بس گئی ۔
صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال پر عمل کرنے کیلئے کتنے حریص تھے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل روایت سے ہوتا ہے ۔
صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی ، تو صحابہ نے بھی سونے کی انگوٹھیاں پہن لیں ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس انگوٹھی کو اتار پھینکا اور فرمایا کہ میں آئندہ کبھی بھی ( سونے ) کی انگوٹھی نہیں پہنوں گا ، توتمام صحابہ نے بھی اپنی سونے کی انگوٹھیاں اتار پھینکیں ۔‘‘ [2]
صحابہ کے بعد یہی تعامل تابعین رحمہم اللہ کے عہد میں جاری رہا اور جیسے جیسے وقت گذرتا گیا اگرچہ اس میں کچھ کمزوری آتی گئی مگر اب بھی امت کی بہت بڑی تعداد ہے جو اجتماعی اور انفرادی عبادات پر کاربند ہے ۔ اور سلسلہ در سلسلہ یہ تعامل جاری وساری ہے ۔
حفاظت حدیث بذریعہ تبلیغ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم نے متعدد مقامات پر یہ احکامات دئے تھے کہ ’’ بلغوا عني ولو آية ‘‘[3]
[1] سیاسی وثیقہ جات از ڈاکٹر حمید اللہ مترجم ص ۱۵
[2] البخاری : کتاب اللباس ، باب خاتم الفضۃ
[3] البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل